کتابوں سے دوستی اچھی نہیں مراد ۔۔۔ طنز و مزاح

یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ پاکستان میں کتاب لکھنے والوں سے زیادہ تعویذ لکھنے والے کما رہے ہیں۔تعویذ لکھنے والوں میں اکثریت ایسے احباب کی ہے جنہیں آپ کہیں بھی نہیں لکھتے۔کتاب آپ گیان کے لئے جبکہ تعویذ پیسہ کمانے کے لئے لکھتے ہو۔لوگوں کا کیا چچا غالب کا بھی غالب گمان یہ تھا کہ کہ پیسہ آجائے تو علم والے کہیں سے بھی مل سکتے ہیں۔
ایک پروفیسر نے شبانہ روز تحقیق کے بعد کتاب کا مسودہ تیار کیا،عنوان تھا کہ گھر بیٹھے پیسے کیسے کمائے جا سکتے ہیں؟اب وہ پیسوں کے انتظار میں ہے کہ کب پیسے جمع ہوں اور وہ کتاب پبلش کرواسکے۔کبھی کبھار جب قسمت کی دیوی مہربان ہوتی ہے تو پھر کتاب کے عنوان سے ہی مصنف لاکھوں کما لیتے ہیںجیسے کہ ایک کتاب پہلی اشاعت پر ہی ریکارڈ ساز بزنس کر گئی عنوان تھاan idea that can change your wife اس میں غلطی یہ تھی کہ life کی جگہ wife لکھا گیا۔
کتب بینی کے فروغ میں اگر آپ سنجیدہ ہیں تو دوکام ضرور کرنا ہوں گے
کتب چوروںکی حوصلہ افزائی وکتب مستعار کی واپسی سے اجتناب۔
کوئی آپ کے سامنے کتب چوری کرے تو اس کی حوصلہ شکنی نہیں بلکہ اسے دادوتحسین سے نوازتے ہوئے اس کی اس جرات کو سلام کیجئے،اگر کوئی اس قدر صفائی سے واردات ڈالے کہ آپ کو خبر تک نہ ہو تو انہیں داد وستائش کے ساتھ ’’تمغہ اسم سیاستدان‘‘سے بھی نوازئے۔پھر چشم فلک دیکھی گی کہ یہ کتب چور ایک دن’’ خزانہ چور‘‘ کیسے بنتے ہیں۔ایک چور دوسرا سیاستدان،سونے پہ سہاگہ۔کچھ سیاستدانوں کے سامنے تو ڈاکو بھی کہہ اٹھتے ہیں کہ بلی بھی اب ہم لنڈورے ہی بھلے۔ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ’’ ٹوٹے‘‘ دیکھے جاتے ہیں اور ٹوٹکے پڑھے جاتے ہیں۔اول الذکر پر مرد ،موخرالذکر پہ خواتین ٹوٹ کے مرتی ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب جاپانی وزیراعظم رہائی کے بعد وطن واپس آیا تو اس کے سامنے ملکی ترقی کے لئے دو ہی راستے تھے
*کرپشن کر کے اپنا معیار بہتر بناتا
*کتاب کلچر سے نوجوان نسل میں جذبہ حب الوطنی بیدار کرتا
اس نے دوسرا راستہ اپنایا۔یہی بات جب ہمارے وزیر اعظم سے پوچھی گئی تو کہنے لگے میرے پاس بھی وہی دو راستے تھے مگر افسوس سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے پہلا راستہ اپنانا پڑا کیونکہ دوسرے راستے کاانتخاب جاپانی وزیراعظم کر چکے تھے۔
عام تاثریہ ہے کہ علم چرایا نہیں جا سکتا،اگر یہ حقیقت ہے تو میرے گھر کی لائبریری میں کثیر تعداد کتب کیسے جمع ہو گئیں۔اس سے آپ از خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اپنے گھر کی لائبریری کے لئے علم چرانا کارِ خیر سے کم نہیں۔ایک انگریز علم دوست کا کہنا ہے(ویسے اکثر انگریز علم دوست ہی ہوتے ہیں دوست کم ہوتے ہیں)
’’میرا مشاہدہ ہے کہ اپنے عزیزواقارب اور دوستوں کو کتابیں مستعار نہ دیں،اس لئے کہ وہ نہ تو پڑھتے ہیں اور نہ ہی واپس کرتے ہیں۔کیونکہ میرے پاس بھی اب وہی کتابیں رہ گئی ہیں جو دوستوں اور رشتہ داروں کی ہیں‘‘۔ذرا سوچئے کہ اگر انگریز پاکستانی ہوتا تو عبارت کچھ اس طرح ہوتی کہ میرا ’’ذاتی تجربہ ‘‘ہے کہ کبھی اپنے رشتہ داروں کو پیسے مستعار نہ دو کیونکہ ادھار لینے کے بعد نہ پیسے ملتے ہیں اور نہ رشتہ دار۔میرا بھی ذاتی تجربہ ہے کہ اگر آپ رشتے بچانا چاہتے ہیں تو اپنے پیسے بچائو،وگرنہ نہ رشتے بچیں گے اور نہ پیسے۔میرا اس بات پہ بھی یقین واثق بلکہ ایمان کامل ہے کہ
’’ رشتہ دار کو وقتی ادھار دینے سے کتاب مستقل دینا بہتر ہے‘‘۔
ْیہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اپنی خرید کردہ کتب پر دیباچہ کے بعد اپنے دستخط کے ساتھ تحریر فرما دیا کرتے تھے کہ’’یہ کتاب محمد علی جناح کی ذاتی ملکیت ہے لہذا اسے چرانے کی کوشش نہ کی جائے‘‘۔اور ان کی کتابیں کبھی چوری نہ ہوتی تھیں بلکہ جو مانگ کے لے جاتا پھر قائد کی قسمت۔اتفاق دیکھئے کہ میں نے جس شخص کے پاس کتاب پر تحریر کردہ عبارت پڑھی انہی سے پوچھا کہ صاحب آپ نے یہ کتاب کہاں سے خرید فرمائی تو ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے گویا ہوئے کہ محترم قائد کے اس پاکستان میں کتاب خریدنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں رہ گیا ،لہذا میں نے اسے ایک پبلک لائبریری سے یہ سوچتے ہوئے چرا لیا تھا کہ علم کبھی چرایا نہیں جا سکتا۔قائد اپنی ہرکتاب پر نوٹ لکھتے تھے شائد اسی لئے ان کی تصویر پاکستانی نوٹ پر چھپی ہوئی ہے۔وہ اپنی کتاب خود خریدفرما کر کے پڑھتے تھے کتابیں چوری کرنے کو ہمیشہ برا خیال کرتے،اسی لئے ہم پاکستانی ان کا یہ قرض اتار رہے ہیں کہ ان کی تصویر والے نوٹ کی سب سے زیادہ چوری کرتے ہیں۔اور تو اور طوائف سے بیوروکریٹ تک کا موڈ بنانا ہو تو اسے ’’نوٹ‘‘دکھا دیں بھلے دور ہی سے ،پھر دیکھئے قائد کے کرشمات۔قائد کو زندگی میں اتنی شہرت نصیب نہیں ہوئی جتنی کہ بعد از مرگ،اگر وہ ’’نوٹ‘‘پر ہو۔یہ میرا خیال نہیں قومی اتفاق رائے ہے۔کہ قوم ہر اس جگہ ایک ہو جاتی ہے جہاں نوٹ ہوں۔
جب سے سوشل میڈیا کا زمانہ آیا ہے زمانہ ہی بدل گیا ہے۔لوگوں کے رویوں سے لے کر انداز حیات تک میں ہر سوُ رنگین مزاجی سی آتی جا رہی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ معیاری کتب سے بھرے شیلف اس بات کی دلیل تھے کہ کسی صاحب علم ،دانشور شخصیت کے گھر داخل ہو گئے ہیںاور کوشش ہوتی تھی کہ کوئی کتاب مل جائے تو غنیمت۔اب کتابوں کے شیلف دیکھتے ہی من چلے آئی فون نکالتے ہیں اور اس caption کے ساتھ ٹک ٹاک اپلوڈ کر دیتے ہیں کہmy favourite place جہاں مجھے’’ مسرت ‘‘ملتی ہے۔یہ عقدہ تب کھلا جب محلہ کی ’’مسرت ‘‘اور ٹک ٹاکر اسی لائبریری میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔
مہنگائی کے اس دور میں کسی دوست کو کتاب مستعار دینا جہاد اصغر سے کم نہیں اور واپس لینا جوئے شیر لانا۔کتاب کسی رشتہ دار کو دیں تو سمجھو کتاب گئی اور واپس مانگ لیں تو سمجھو رشتہ سے گئے۔رشتہ اگر بہنوئی کا ہو اور کتاب نایاب و کمیاب ہو تو سمجھو بہن سے گئے۔میرا دوست اکثر کہا کرتا ہے کہ خرید کر کتابیں وہی پڑھتے ہیں جو چوری نہیں کرسکتے اور جو چوری کرتے ہیں وہ پڑھتے نہیں۔اسی لئے اب پڑھے لکھے لوگوں کے گھر میں کتابیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔
اس کا مطلب اب یہ بھی نہیں کہ کوئی آپ سے کتاب مانگے اور صاف صاف جواب دے دیں نہیں ایسا مناسب نہیں ہوگا کہ بندہ منہ پر ہی جواب دے، بلکہ کچھ دن بعد انکار کریں ۔اب دیکھئے کہ ایک بار میرے ایک پرائمری پاس عم زاد نے میرے گھر کے بک شیلف میں پڑے شہاب نامہ پر ہی ہاتھ ڈال دیا،مجھے لگا ہاتھ شہاب نامہ پر نہیں براہ راست شہاب صاحب کے کلیجہ پر ڈال دیا ہو۔چلئے نثری کتاب کی حد تک تو بات ٹھیک تھی کہ شائد پڑھ لیتا ہو مگر حضور میرا کلیجہ اس وقت منہ کو آیا جب موصوف نے دیوان غالبؔ اور میرؔ کو بھی آڑے ہاتھوںلیا۔اب آپ ہی بتائیں کہ دل رووں کہ پیٹوں جگر کو میں، کہ بندہ انکار واجتناب نہ کرے تو کیا کرے۔
کہتے ہیںعلم واحد خزانہ ہے جسے چرایا نہیں جا سکتا ،سب بکواس ہے اگر ایسا ہے تو میرے گھر کی لائبریری روز بروز بڑھتی کیوں جا رہی ہے؟۔کسی دور میں اخبارات کی زینت یہ شہ سرخی بھی بنی تھی کہ ہمارے ایک سیاستدان کے گھر ایک ہی کتاب ہے اور وہ ہے ٹیلی فون ڈائریکٹری ،اب ماشااللہ ان کے گھر پوری لائبریری ہے۔اب پتہ نہیں کتابیں خریدی ہیں یا ۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ ضرب المثل ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے ،خبر پڑھتے ہی گمان غالب تھا کہ خریدی نہیں ہوں گی۔کیونکہ اب تو لوگ انہیں دیکھتے ہیںتو چور چور کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔عوام کو ایسا نہیں کرنا چاہئے،بری بات ہے،چور کو چور نہیں بلکہ چور صاحب کہنا چاہئے کیونکہ صفائی یا تو یہ سیاستدان کرتے ہیں یا پھر میرے علاقہ میں جو صفائی کرنے والا ’’صاب‘‘۔
کتاب کی اہمیت اس سردار جی سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا جس کی سالگرہ پر سبھی لوگ مہنگے مہنگے تحائف دے رہے تھے کہ ایک شوقین سردار نے کرشن چندر،منٹو اور ٹیگور کے سیٹ پیش کر دئے،کتابیں دیکھتے ہی سردار جی کہنے لگے
’’کتاباںتے ٹھیک اے پر میرا تحفہ کتھے‘‘
واقعی آجکل کتابیں اور ہاتھی کے دانت پڑھنے کے لئے نہیں دکھانے کے لئے ہیں۔جیسے کہ ایک بک شاپ پر ایک ماڈرن خاتون دھڑا دھڑ کتابیں اٹھائے جا رہی تھی پاس کھڑے ہوئے ایک کالم نگار کو بہت شرمندگی ہوئی کہ ایک یہ خاتون ہے اور ایک میں ہوں کہ بس۔۔۔۔۔حیرت کی انتہا تب ہوئی جب وہ خاتون کائونٹر پر جا کر مینجر سے کہنے لگی کہ سر مجھے میرون اور بلیو کلر میں بھی چند کتابیں درکار ہیں میں نے اپنے ڈرائنگ روم کے پردوں سے میچ کرنی ہیں۔
اب فیصلہ آپ پہ چھوڑتا ہوں کہ کتابیں خریدنی چاہئے یا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ْ

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button