بہہ جائیں نہ فرصت کے سمندر میں پگھل کر ۔۔۔ امر روحانی

آلامِ شب و روز کی گردش سے نکل کر
بہہ جائیں نہ فرصت کے سمندر میں پگھل کر

ہم بھول گئے وقت کے زنداں کی صعوبت
بازیچۂ ارژنگ کی رونق میں بہل کر

ہیں عالمِ ہستی کے عجب دورِ فتن میں
خود کو بھی جہاں ملتے ہیں بہروپ بدل کر

اک تشنگئ شوق کہ پی جائے سمندر
اک دیدۂ حیران سو آئینے نگل کر

کیا کیا نہ کرے لذتِ آزار تماشا
بہہ جائے ہنسی آنسوؤں کے ساتھ پھسل کر

سچ کہتا ہوں اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہتا
ہر شخص نے بولا ہے یہی جھوٹ مچل کر

تعلیم سے ، تبلیغ سے ، تہذیب سے بالا
بک جاتے ہیں ہم لوگ عقیدوں کو مسل کر

اک جان امـؔر کیا پڑی مٹی کے بدن میں
چھونے لگی افلاک کو یہ خاک اچھل کر

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button