آزاد ملک کی قید لڑکی۔۔تحریر: ثاقب علی راٹھور
"مبارک ہو لڑکی پیدا ہوئی ہے” یہ وہ الفاظ ہیں جن کو سن کر معاشرے میں چند افراد کے منہ پر بارہ بج جاتے ہیں۔ لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس موضوع پر لاتعداد لکھاری لکھ چکے ہیں۔ میں نے بھی اسی موضوع پر طبع آزمائی کرنے کا سوچا۔ ہوا کچھ یوں کہ وہ جب پیدا ہوئی تو دائی نے کمرے سے باہر نکل کر کہا مبارک ہو لڑکی ہوئی ہے۔ سب کے چہرے پر مسکراہٹ ایسے غائب ہوئی جیسے انکی دنیا ہی اجڑ گئی۔ والدین کچھ پریشان ہوئے کہ اب اس بوجھ کو کیسے سنبھالیں گے لیکن معصوم صورت دیکھ کر اس کو نا چاہتے ہوئے بھی پالنے لگے۔
رفتہ رفتہ عمر بڑھنے لگی سکول کی عمر ہوئی تو والدین نے پہلے انکار کیا کہ یہ لڑکی ہے اسکو تعلیم کی کیا ضرورت ہے اس نے بڑی ہو کر بھی ہانڈی چولہہ ہی کرنا ہے۔ لیکن بچی کی ضد پر سرکاری سکول میں داخل کروا دیا۔ جب کہ اس کا بھائی پرائیویٹ سکول میں پڑھ رہا تھا۔ لیکن وہ ایک لڑکی تھی جس کے ہزاروں خواب تھے ایسے خواب تھے کہ کوہ ہمالیہ سے بھی بلند، ضد اتنی کہ ستاروں پر کمند ڈالنا چاہتی تھی۔
اس لڑکی نے پرائمری سکول تک پڑھا اچھے نمبروں میں پاس ہوتی رہی۔ گاؤں میں سکول پرائمری تک ہی تھا۔ آگے تعلیم کی لگن نے والدین کو دوسرے گاؤں ہائی سکول میں داخلہ پر مجبور کر دیا۔ ہائی سکول لڑکیوں کا نہیں تھا۔ لڑکوں کے ساتھ پڑھتی رہی۔ لیکن اس کے والدین کو رشتے داروں کے طعنے ملتے رہے کہ جوان لڑکی کو لڑکوں کے سکول سے اٹھوا لو۔ یہ وہاں پتا نہیں کیا کیا گل کھلائے گی۔ لیکن لڑکی دھن کی پکی تھی اس نے ان باتوں کو پس پشت ڈال کر ہائی سکول میں بھی اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے بورڈ ٹاپ کر گئی۔
کالج میں داخلے کے لیے شہر کی طرف رخت سفر باندھا تو پورا گاؤں یوں دیکھنے لگا جیسے اس سے کوئی گناہ عظیم سرزد ہو گیا ہو۔ کالج آ کر اس نے ایف اے بھی امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا۔ اور پھر ایک اور آگ کا دریا عبور کرنا باقی تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ لڑکی کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی تھی والدین کے وسائل تو اتنے نہیں تھے کہ اسکے خرچے اٹھا سکیں۔ لڑکی نے جب یہ کہا کہ خود کام کر کے تعلیم جاری رکھوں گی تو جیسے سب کو سانپ سونگ گیا رشتے داروں کو تو جیسے جلتی آگ مل گئی اور انہوں نے اپنی باتوں کا تیل چھڑکنا شروع کر دیا۔
یوں والدین بھی تذبذب کا شکار نظر آئے۔ خیر جیسے تیسے وہ یونیورسٹی داخلہ لینے میں کامیاب ہو گئی۔ وہ ہی لڑکی جس نے تعلیمی میدان میں میں ہمیشہ نمایاں پوزیشنیں حاصل کی تھیں۔ یونیورسٹی میں گئی تو تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدان میں بھی اس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑنے شروع کر دیے۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہمیشہ سے ہی اس کے اندر ایک خاص لڑکی نظر آئی اس کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ وہ کچھ کرنا چاہتی ہے ہے وہ ہمیشہ سے کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے حالات میں اس کو اجازت نہ دی۔
یونیورسٹی میں آتے ساتھ ہی اس کا رہہن سہن بدل گیا۔ اس کے لباس میں جدت آ گئی۔ جیسے وہ برسوں کی قید سے رہا ہوئی ہے۔یونیورسٹی میں اس نے کس شعبے کو چنا وہ اکثر لڑکوں کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پھر وہ گھر واپس مہمانوں کی طرح جاتی تھی۔ یونیورسٹی کے بعد اس نے نوکری کی تلاش شروع کی۔ایک فلاحی تنظیم میں اسکو ٹرینر کی نوکری مل گئی۔ اس کام میں بھی اس کا ثانی کوئی نہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ تاروں کی طرح چمکنے لگی۔اس فیلڈ میں اس نے اپنا مقام بنایا۔ اچھی خاصی تنخواہ ملنے لگی جو کے وہ اپنے گھر والوں کو بھیج دیتی تھی۔ اس نے گھر میں موجود افراد کا خیال ایک لڑکے کی طرح رکھا۔ لیکن اس سب کے دوران وہ خود کو بھول گئی تھی کہ اس کی بھی ذاتی زندگی ہے۔اس کا بھی کوئی باقی لڑکیوں کی طرح ہمسفر ہونا چاہیے۔ اسکو بس اپنے گھر والوں کے لیے کام کرنا ہے۔وہ ملک کے طول و عرض میں سفر کرتی تھی۔اسلیے اسکو کسی ساتھ کی ضرورت تھی۔ ساتھ دوست بنے، پیار محبت کی باتیں چلیں لیکن یہ وقتی پیار تھا۔ اسکو رنگین خواب دکھا کر چھوڑ دیا گیا۔ بے وفائی انسان کو مار ڈالتی ہے۔ اس نے کام پر توجہ دینا چھوڑ دی۔ نوکری چلی گئی بہت پریشان رہنے لگی۔
اس نے سوچا کہ شادی کر لوں شائد میرے دل و دماغ سے پہلے والی باتیں نکل سکیں۔اس نے نا چاہتے ہوئے بھی اس شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کا سوچا جس شخص کے بارے میں کبھی اس کے یہ الفاظ تھے کہ وہ اس قابل نہیں کہ اس کے ساتھ شادی کی جائے بلکہ وہ کسی کے ساتھ شادی کے قابل نہیں ہے۔صرف اس شخص میں ایک خوبی تھی کہ وہ مالدار تھا۔ اس شخص کی وجہ سے لڑکی کو دوبارہ سے نوکری مل جائے گی۔ اس نے شادی تو کر لی لیکن صرف اپنے بوڑھے والدین کی خاطر۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی اس کے گھر والوں کو پیسوں کی کمی لگے۔لیکن جب کئی سال بعد اس سے بات ہوئی تو اس کی آنکھوں میں آنسو نظر آئے اس کا چلبلا پن کب کا روٹھ چکا تھا۔ چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجائے ہوئے مصنوعی خوش مزاجی سے بات کرتے ہوئے کہتی ہے کہ لڑکی زیادہ بولے تو چالاک ہونے کا طعنہ ملتا ہے۔ چپ رہے تو معاشرے کی نظر میں مغرور سمجھی جاتی ہے۔لڑکی اگر پڑھائی کرے تو تیز قرار دی جاتی ہے۔ ان پڑھ رہے تو جاہل کہلاتی ہے۔
لڑکی نے اپنے حق کے لئے لڑنا شروع کیا تو تو منہ پھٹ ہونے اور زبان دراز کا لقب ملتا ہے۔خاموش رہنے پر تو اللّہ میاں کی گائے سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔لڑکی نے ہمسفرکے لیے اپنی پسند کا اظہار کیا تو بے شرم کہلائی۔اور اگر بڑوں کے فیصلوں پہ سر جھکایا تو بھیڑ بکری کا طعنہ بھی سہنا پڑا۔ لڑکی کی شادی نہیں ہوئی تو یہ قصور بھی اسی کا تھا۔ خدانخواستہ طلاق ہو گئی تو معاشرے میں طلاق یافتہ ٹھہری۔لڑکی اپنی ماں بہن بیوی اور بیٹی ہو تو خاندان کی عزتوں کی امین ہوتی ہے۔
یہ ہی لڑکی دوسروں کی ماں بہن بیوی اور بیٹی کو مفت کا مال سمجھا جاتا ہے۔لڑکی نے پینٹ پہننی شروع کی ماڈرن کہا گیا۔عبایا پہنا تو بیک ورڈ، دقیانوسیت کی پاسبان کہا گیا۔ایک دیہاتی لڑکی خود ساختہ بنائی ہوئی روایات ، رسموں اور رواجوں میں جھکڑی ہوئی ہوتی ہے۔کیونکہ وہ لڑکا نہیں ایک “ لڑکی “ ہے۔ دین اسلام نے تو لڑکی ذات کو اعلیٰ مقام دیا ہے توپھر کیوں لوگ لڑکی کی پیدائش کی خوشی نہیں مناتے؟کیونکہ یہ ایک آزاد ملک کی قیدی لڑکی ہے۔لڑکی ہواؤں میں اڑنا چاہتی ہے تو اڑنے سے پہلے ہی اس کے پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔۔۔لڑکی کے خوابوں کو آنکھوں سے نوچنے والے اور اس کی صلاحیتوں کو دبانے والے نہیں بلکہ لڑکی کے خوابوں کو آنکھوں میں سجانے والے اور صلاحیتوں کو ابھارنے والے بنو۔ایک “ لڑکی “ ہوں تو کیا ۔۔۔۔؟ لڑکی کے اپنے بھی کچھ خواب ، ارمان ، اور خواہشات ہیں۔