یہ سانحہ زمیں پہ تو ایسا ہوا نہ تھا ۔سلام ۔۔۔ ناصرؔشکیب
یہ سانحہ زمیں پہ تو ایسا ہوا نہ تھا
وہ کون سا تھا ظلم جو ان پر روا نہ تھا
بکھرے پڑے تھے دشت میں ہیرے حسینؑ کے
ایسی سخاوتیں کہ خزانہ بچا نہ تھا
اس کے بدن کو کر دیا لشکر نے پاش پاش
پھولوں کی چوٹ کا بھی تو جس کو پتا نہ تھا
پروانے اپنے عشق میں قربان ہو گئے
خیمہ کا گو چراغ ابھی تک بجھا نہ تھا
تشنہ لبی سے خشک تھا اصغرؑ کا جسم سب
کمبخت حرملہ کا نشانہ خطا نہ تھا
وہ تیرگی میں ڈوب کے ابھرے کبھی نہیں
جن کے دلوں میں کوئی بھی خوفِ خدا نہ تھا
کب سے تری تلاش میں پھرتا ہے تیرا عکس
ناصرؔ ترے نصیب میں بھی آئنہ نہ تھا