ظفراقبال ظفرکی زندگی بھر کے مشاہدات و احساسات کا اظہارسرگزشت ’’ظفریات‘‘ ۔۔۔ تحریر: حسیب اعجاز عاشر

ظفر اقبال ظفر سے رفاقت پر مجھے فخر ہے جو کم و بیش ایک دہائی پر محیط ہے ،میں اِن کی قلمی فن اور شخصیت کا ہمیشہ سے معترف ہی نہیں بلکہ مداح بھی ہوں۔ خوش اخلاق،دھیمہ لب و لہجہ،نرم گفتار اورشرافت و تہذیب کے مجسم ظفر اقبال ظفر ایک ملنسار و درویش منش شخصیت کے مالک ہیں۔زمانہ طالب علمی میں ہی ذوقِ مطالعگی ہم مزاج ہوئی جس نے انہیں قلم کاری کی جانب راغب کیا اور یوں موصوف آج صاحبِ اولاد ہونے کیساتھ ساتھ ایک شاہکار کتاب’’ظفریات‘‘کی صورت میں صاحب کتاب بھی ہوگئے ہیں ،’ظفریات‘‘ کسی شاعر کے اِس مصرعے کے مصداق ہے کہ ’’رقصاں ہے لفظ لفظ میں اِک موجِ زندگی ‘‘۔آپ کی تحریروں میں فقرات مختصر مگر مضمون جامع ہیں، تمام علمی، دینی ،معاشرتی اور سماجی موضوعات پر مصنف نے ہر پہلو کو جذبات واحساسات کو بیدار کر کے منطقیانہ استدلال کیساتھ عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر سپردِ قرطاس کیا ہے ۔ مصنف کی بناوٹ اور تکلفات سے پاک،خلوص و سچائی سے لبریز زندگی کی سادگیاں اُنکی عام فہم تحریروں میں بھی نمایاں ہیں اور کچھ کر گزرنے کا عزم کچھ کر دیکھانے کا ولولہ بھی پوشیدہ نہیں۔ مضامین مبالغہ آرائیوں سے کوسوں دوراحساسِ آدمیت اور دردِ دل ہی نہیں بلکہ ادب کی آمیزش کیساتھ دل نشین انداز میں رقم طراز کیا گیا ہے جو کسی بھی لمحے طبیعت پر بوجھل پن کا احساس تک نہیں ہونے دیتے۔

کتاب کا انتساب حضرت ’’فاطمہ ؓ کے بابا حسنینؓ کے نانا ۔وجہ تخلیق کائنات۔سرکار دوعالم ﷺ کہ نام ‘‘ہے ۔پُرمغز پیش لفظ بعنوان ـ’’حالاتِ حافظہ‘‘ میں مصنف نے کتاب کے مرکزی خیال کو باخوبی سمونے کی سعی کی ہے۔عنوان’’ظفریات‘‘اورحمدان خالد کے تخلیق کردہ خوبصورت سرورق پر مصنف ظفر اقبال ظفر کا دلفریب عکس کتاب کو خود نوشت یا آپ بیتی ہونے کا تاثر تو دے رہے ہیں مگر 24مضامین پر مشتمل اِس کتاب کے مکمل مطالعہ سے ہی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کتاب کا سارا متن سوانح عمری کے دائرہ کار میں نہیں ۔ ’’ظفریات‘‘مصنف کے زندگی بھر کے تلخ تجربات ، مشاہدات، احساسات، جذبات،نشیب و فراز اور وارداتِ قلبی کامنفرد انداز و بیان میں خوبصورت اظہار ہے ۔معروف رائیٹر و فلم ساز ناصر ادیب کی رائے میں ’’ظفر اقبال ظفر سمندر کے کنارے جا کر سطح پر آنے والی مچھلیوں کو نہیں پکڑتا بلکہ سمندر میں چھلانگ لگادیتا ہے اور اُس کی گہرائیوں میں اُتر کر وہاں سے ہیرے موتی اپنے لفظوں کے جال میں اکٹھے کر کے لاتا ہے ۔جبکہ نامور موٹیویشنل اسپیکر و ادیب قاسم علی شاہ کی نظرمیں ’’ظفر اقبال ظفر نے مضامین کا انتخاب بہت عمدگی سے کیا ہے جو کہ سماجی اور معاشرتی مسائل کا عکاسی کر کے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کا سبب بنے گا ‘‘
مصنف نے اپنے مضمون’’سرکارِ دوعالم حضرت محمد ﷺ کی محبت کے نام‘‘میں اِس حقیقت کو بیان کرنے کی سعی کی ہے کہ عشق وہ نہیں جو صرف زبان پر مچلے بلکہ عشق وہ ہے جو سینے میں چھپے دل کے اندر ہو اور وہ چہرے و کردار سے جھلکے بھی ۔جب تک آپﷺ کا غم ہمار اغم نہیں بنے گا ،آپﷺ کی تڑپ ہماری تڑپ نہیں بنے گی،آپ ﷺ کی فکر ہماری فکر نہیں بنے گی ہم صرف نام کے عاشق رہے گے ۔کتاب میں شامل’’مکہ مدینہ کا خوابی سفر نامہ ‘‘ایک ایسے سفرِ لبیک اور خاص کیفیتِ سفر کی مہکتی داستان ہے جو قاری کے دل کو نہیں بلکہ روح کو بھی منور کر دیتی ہے کہ احساس ہونے لگتا ہے کہ پردے دھیرے دھیرے سے اُٹھنے لگے ہیں جو فاصلے کل تک بڑے طویل لگ رہے تھے آج مٹنے لگے ہیں،چشم تصور وہ مناظر ہو بہو اپنے سامنے دیکھنے لگے ہیں اور روح اختیار کی قید سے آزاد ہونے کو ہے ،لوحِ جبیں ناقابل بیان کیفیت کی حالت میں رب ِ کائنات کے قدموں میں سجدہ ریز بھی ہورہی ہے۔زبان اعتراف خطا ئوں کو مچلنے لگی ہے اور جھکی ،شرمندہ آنکھوں سے ندامت کے آنسوئوں کا سمندر اُمڈنے کو ہے ۔ مصنف کو اپنے اِس روحانی سفر کے قدم قدم پر جو جو روح پرور مناظر اپنے حصارو طلسم میں لئے چلے گئے وہ اُنہیں من و عن قرطاس پر ایسے ایمان افروز منظرکشی کیساتھ منتقل کرتے چلے گئے کہ یہ تحریر قاری کو اپنے ساتھ ساتھ کبھی مکے کی گالیوں میں اور کبھی مدینے کے کوچوں میں ساتھ لئے پھرتی ہے ۔
ایک طرف ’’ظفریات‘‘دردمندی اور دانشوری کا ایک حسین امتزاج ہے اور دوسری طرف سماجی و تہذیبی شکست و ریخت سے دوچار معاشرتی رویوں سے خوب اظہارِ ناراضگی کیلئے الفاظ کے چنائو میں تلخی اور کاٹ بھی ہے ۔ ’’جہیز کا خاتمہ مر د کی مشکل آسان کرے گا‘‘ جیسے مضمون عہدحاضر میں ایسی تحریر شدید گرم موسم میںسڑک کنارے شدتِ پیاس سے دم توڑتی معصوم چڑیا کے منہ میں ایک گھونٹ پانی ڈالنے کے مترادف ہے کہ کیسے قلم سے معاشرے کی تشکیل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ذمہ دار طبقے کی حساسیت و شعور عوام کے حقیقی مسائل سے آشنا نظر آ رہی ہے اور اِس کے ادراک کیلئے سنجیدگی سے ایک فکر کو اُجاگر کیلئے کوشاں بھی ہے۔
’’تو اور تیرا سب کچھ تیرے باپ کا ہے‘‘ ، ’’بچوں کی بات بڑوں کے ساتھ ۔سکول کی یادیں‘‘، ’’کامیابی کی منفرد نظیر امتیاز بشیر‘‘،’میرا ہمذاد عارف لوہار‘‘ اور’’شافع محشرﷺ کے مولف میاں محمد اسلم جاوید کے نام‘‘جیسے مضامین صاحب کتاب کی پرانی حسین یادوں ،اِن سے جڑے مقدس رشتے ناطوں ،اِن بے مثال رشتے ناطوں کی عظمت و اہمیت اورکچھ بچھڑے ہوئے انمول کرداروں کے سنگ گزرے شب و روز سے مہک رہے ہیں۔ ’’انسان کی خدائی محبت کا نام ماں ہے ‘‘ میں مصنف نے اِس راز کو بھی فاش کیا ہے کہ ماں کودی گئی اُن کے مقام کے شیانِ شان محبت اوراحترام کا صلہ ہے کہ آج اللہ ظفراقبال ظفر کی جھولیاںمحبتوں،مقام،عزتوں اور احترام سے بھر رہا ہے ۔ ’’عورت اور گھر داری‘‘ میں مصنف نے اِس اہمیت کو اُجاگر کیا ہے کہ کاش میاں اور بیوی کو اپنے اپنے فرائض بارے احساس ذمہ داری ہوجائے ،دونوں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے بجائے فرائض کی ادائیگی سے اپنے گھر کو جنت بنائیں ۔ مضمون بعنوان’’آسمانی شادی‘‘ قاری کے اندر ایک نئی فکر و تحریک کو جنم ددیتا ہے مگر مطالعہ شرط ہے ۔ مضمون’’کتاب سے قلم کا سفر‘‘میں مصنف اپنی اُس دعا کا تذکرہ کر رہے ہیں جوبارگاہ الہی کے حضور دست بدستہ کی گئی کہ’’ مالک میرا لکھنا اگر تجھے پسند نہیں تو میرے دل میں اُتار دے میں قلم کو ہاتھ نہیں لگائوں گا اور اگر تو نے پسند کیا ہے تو اسے بندوں کی بھی پسند بنا دے ‘‘پھر چشم فلک نے وہ قابل رشک منظربھی دیکھے کہ کیسے مصنف کے مضامین پاکستان بھر کے معروف اردو اخبارات میں ہی نہیں بلکہ سرحد پار ہندی جرائد و اخبارات کے زینت بھی بنے ۔جب حوصلے جواں ہوں، عزم بلند ہو، نیت صاف ہواور ایک اللہ پر یقینِ کامل ہو تو منزلیں خود چل کر ایسے ہی قدموں تلے آ بچھتی ہیں۔
زیرنظر کتاب میں رقم لفظ لفظ ایک داستان ہے جو قارئین کے دلوں پر اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں ۔ الفاظ کیسے کیسے کن کن جادوگریوں سے قاری کو اپنے سحر میں لے لیتے ہیں یہ راقم الحروف کے بے ترتیب جملوں سے نہیں بلکہ کتاب کے مطالعے سے جانا جاسکتا ہے ۔دھنک مطبوعات کے زیراہتمام شائع ہونے والی اِس 96صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت صرف دعائیں ہیں ۔اِس کے مطالعے کی اہمیت کا اندازہ ناصر ادیب کی اِس بات یہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ یہ کتاب ہر صاحب اولاد آدمی کے تکیے کے نیچے ہونی چاہیے‘‘۔مصنف لکھتے ہیں کہ ’’میرے حالات ایسے ہیں کہ کسی استاد کو شاگردی کے لئے وقت دے سکا اور نہ ہی وقت نے مجھے کوئی ایسا استاد دیا۔میرے لئے کتاب ہی اُستاد ہے ‘‘۔مگر مطالعہ’’ ظفریات‘‘تو کچھ اورہی عندیہ دے رہا ہے کہ موصوف کو الفاظ کے چنائو اورموقع محل کے مطابق بااحسن خوبی استعمال پر ایسی خوب دسترس ہے کہ یہ اُستادیاں تو اُستادوں کے اُستادہی لگا سکتے ہیں ،بہرحال’’ظفریات‘‘کے مطالعہ سے کہیں کہیں یہ احساس قاری کی سوچ دستک ضروردیتا ہے کہ مصنف کے اندر ابھی بڑے سوالات پوشیدہ ہیں جو اِن کی نئی کتاب میں بے نقاب ہونگے یعنی اُستادیاں ابھی باقی ہیں۔قلم قبیلہ اپنے اِس پیارے دوست کی مزید ترقی و کامرانی کیلئے تہہ دل سے دعاگوہ ہے ۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button