ذیابیطس خاموش قاتل

آج دور جدید میں شوگر ( ذیابیطس) کے مرض کی تشخیص تو ممکن ہے مگر اس کا موثر علاج جس سے یہ مرض بالکل ختم ہوجائے ابتک ایجاد نہیں ہوسکا ہے۔ شوگر ( ذیابیطس) وہ مرض ہے جو دیمک کی طرح خاموشی سے انسانی جسم کے اندرونی اعضاء کو چاٹ جاتا ہے اور اگر اس کے بارے میں بروقت معلوم نہ ہوسکے تو یہ بینائی کی محرومی سے لے کر گردوں کے فیل ہونے اور دیگر لاتعداد طبی مسائل کا سبب بنتا ہے ۔ ماہرین امراض ذیابیطس نے انکشاف کیا ہے کہ تقریباً ہر چوتھا بالغ پاکستانی اس بیماری کا شکار ہو چکا ہے اور یہ مرض ایک خاموش قاتل بن چکا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق صرف پاکستان میں ہر سال تقریباً 4 لاکھ افراد کے پیر کاٹ دیئے جاتے ہیں کیونکہ ذیابیطس کے مرض میں پائوں کا زخم ہونا ایک بنیادی پیچیدگی ہے ۔ ماہرین صحت کے مطابق ذیابیطس کے اسباب فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ کا استعمال، موٹاپا، تمباکو نوشی اور ورزش نہ کرنا ہے۔ جبکہ ذیابیطس کا مرض جسم میں انسولین کی مقدارغیر معتدل ہونے سے پیدا ہوتا ہے ۔ درحقیقت انسان جو بھی خوراک کھاتا ہے، اس خوراک کا اکثر حصہ خاص طور پر میٹھی اور نشاستہ دار اشیاء شوگر میں تبدیل ہوتی ہیں، اس شوگر کو گلوکوز کہتے ہیں، اور یہ گلوکوز جسم کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ انسانی جسم میں معدہ سے ذرا نیچے لبلبہ (Pancrea) ہوتاہے، جو انسولین نامی ہارمون پیداکرتا ہے جو گلوکوز کی مقدار کو حدود میں رکھتا ہے، اور ساتھ ہی یہ ممکن بناتا ہے کہ ہمارے عضویات خون کے ذریعے سے گلوکوز حاصل کر سکیں، اگر ایسا نہ ہو تو پھر انسانی جسم میں شامل چربی ہی توانائی کا ذریعہ رہ جاتی ہے۔ ذیابیطس کا مرض لاحق ہونے پر بنیادی طور پر یہ ہوتا ہے کہ لبلبہ صحیح کام نہیں کرتا اور ضروری مقدار میں انسولین خارج نہیں ہوتی، یا پھر یہ ہوتا ہے کہ خلیات انسولین کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، دونوں صورتوں میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خون میں گلوکوز کی مقدار متوازن میں نہیں رہتی جس کے نتیجے میں تمام عضویات پر برا اثر پڑتا ہے، جبکہ سب سے برا اثر خون کی شریانوں پر ہوتا ہے۔
بنیادی طور پر ذیابیطس کی دو قسمیں ہیں،اول جس میں جسم میں انسولین قطعاً نہیں بنتی، یہ بیماری کبھی بھی نمودار ہو سکتی ہے مگر عموماً بچپن سے ہی لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں، اس کا علاج مستقل انسولین لیتے رہنا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ خون میں گلوکوز کی مقدار سے آگاہ رہنا بھی ضروری ہے تاکے انسولین کی صحیح مقدار لی جاسکے۔ کچھ صورتوں میں خون میں گلوکوز کی مقدار بہت زیادہ یا بہت کم ہو سکتی ہے، لہٰذا محتاط رہنے کی ضرورت رہتی ہے۔ دوسری قسم کی ذیا بیطس میں یہ ہوتا ہے کہ خلیات اور ٹشوز میں انسولین کے ساتھ کام کرنے والے کیمیائی اجزاء صحیح طریقے سے اپنا عمل سرانجام نہیں دے پاتے جس کے نتیجے میں وہ نظام جس کو انسولین کی آمد کے بعد کام کرنا ہوتا ہے، یہ اندازہ نہیں لگا پاتا کہ انسولین کی مقدار کتنی ہے، نتیجے میں جسم کو گلوکوز کی صحیح مقدار حاصل نہیں ہو پاتی۔ نتیجہ گلوکوز کی زیادتی یا کمی دونوں صورتوں میں نکل سکتا ہے،ذیابیطس کی یہ قسم زیادہ عام ہے۔ ذیابیطس کی عمومی علامات میں دھندلا نظر آنا، چکر آنا، مستقل پیاس لگنا، تیزی سے وزن گرنا، بھوک لگتے رہنا، بہت زیادہ پیشاب آنا شامل ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان علامات کا خیال رکھا جاے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ذیابیطس پر نظر رکھی جائے اور وقتاً فوقتاً ذیا بیطس کا ٹیسٹ کروایا جائے۔ جبکہ چالیس سال سے زیادہ عمر کے خواتین و حضرات کو ذیابیطس سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذیابیطس موروثی اثرات کی بنا ہ پر بھی ہو سکتا ہے یعنی ماں باپ یا ان کے والدین اگر ذیابیطس کے مریض رہے ہیں تو اگلی نسل میں ذیابیطس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ذیابیطس کے اثرات پورے جسم پر پڑتے ہیں اور لمبے عرصے میں خاصی مشکلات پیش آ سکتی ہیں، جیسے آنکھوں اور بینائی پر اثرات، بلند فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر اور ان کے نتیجے میں دل کی بیماریاں، جلد کی بیماریاں، پورے جسم خصوصاً ٹانگوں پر چوٹوں کا ٹھیک نہ ہونا، گردوں کی بیماریاں، اس کے علاوہ یہ رگوں اور شریانوںپر بھی اثر انداز ہو تا ہے، اور بہت سی جان لیوا بیماریوں کی وجہ بن سکتاہے۔
بظاہر ذیابیطس اور دل کے عوارض دو مختلف چیزیں ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ذیابیطس میں مبتلا افراد کی اکثریت کئی ایک پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ ان پیچیدگیوں میں امراض قلب سر فہرست ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس دونوں میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، معاملے کا سنگین پہلو یہ ہے کہ جب یہ دونوں بیماریاں مل جائیں تو سخت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دونوں امراض، ایک دوسرے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر پر کنٹرول اس اعتبار سے اہم ہے کہ بہت سی صورتوں میں صرف احتیاط ہی سے یہ مرض کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ذیا بیطس سے بچنے کے لیے ضروری ہے، وزن کو بڑھنے نہ دینا، پوری نیند لینا، دن میں جاگنا رات میں بروقت سونا، غذا میں توازن رکھنا ، سبزیوںکے استعمال سے پروٹین کا مناسب حصول، زیادہ چکنائی اور نشاستہ سے بھری غذاؤں سے اجتناب کرنا۔ گوشت، جمنے والی چکنائیوں، مکھن، بناسپتی گھی اور مارجرین وغیرہ کا استعمال ترک کرنا، کیونکہ ان سے کولیسٹرول کی سطح بڑھ سکتی ہے۔ بلکہ مناسب یہی ہے کہ مغزیات جیسے مونگ پھلی، زیتون کاتیل، کینولا کا تیل، چکنی یا روغنی مچھلی وغیرہ کھائے جائیں۔ اور خصوصاً روزانہ کم ازکم 30 منٹ کی ورزش کی عادت اپنائی جائے ۔ تمام معا لجین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر شوگر کا مریض ورزش کو اپنے معمول کا حصہ بنا لے تو وہ شوگر کے اثرات بد سے محفوظ رہ کر پر لطف زندگی گزار سکتا ہے کیونکہ ورزش سے اس مرض کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے ، اور ورزش بالواسطہ طور پر لبلبے کو تحریک دے کر انسولین کے افراز میں اضافہ کرتی ہے اور انسانی جسم میں انسولین لیول متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button