یہ وقت ہے کہ سنبھل جائیں !

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک مرتبہ پھر لاہور میں بڑا پاور شو کرنے میں کامیاب رہے ہیں ،حکومت ہر ممکن عمران خان کوو دبانے کیلئے جائزو ناجائز ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے ،مگرحکومت کے ہر ایکشن کے بعد عمران خان مزید جارحانہ کھیل پیش کرنا شروع کردیتے ہیں، 25 مئی کے لانگ مارچ کی ناکامی ہو یا پھر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ، پرسنل اسٹاف افسر شہباز گل کی گرفتاری ہو یا پھر مبینہ آڈیوز لیک ہونے کا معاملہ ، عمران خان ہر بار نئے روپ میں نمودار ہوتے ہیں اور عوام کو اپنے بیانیے پر قائل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم جماعتوں کی اپنی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے ہی عمران خان کی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹ گئی اور مظلومیت کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے،عوام کے اندر ایک عام رائے بن گئی ہے کہ ایک شخص کا مقابلہ گیارہ جماعتوں سے ہے ،عوام کے ذہنوں میںتاثر بیٹھ گیا ہے کہ عمران خان اکیلے ہی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں،حالانکہ بطور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بھی اتحادیوں کا ایک لشکر تھا، مگراس کی تحریک انصاف تشہیر نہیں کرتی تھی،جبکہ اتحادی حکومت اپنے اتحادیوں کی مرہون منت ہے اور اتحادی قیادت کی مرضی کے بغیر حکومت کوئی فیصلہ کرنہیں پارہی ہے ،اس صورتحال میں سب سے زیادہ سیاسی نقصان مسلم لیگ( ن) کا ہورہا ہے، تاہم اس کے کچھ اثرات سندھ میں پیپلزپارٹی اور خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمن کے ووٹ بینک پر بھی پڑیں گے ۔اس میں شک نہیں کہ گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت لینا ہی غلط سیاسی فیصلہ تھا، اگر کچھ دیر کیلئے عمران خان کو حکومت سے نکالنے کی دلیل سے اتفاق کربھی لیا جائے تو پھر طویل عرصہ کیلئے حکومت رکھنا،اس سے بھی بڑا ا بلنڈر ہے،یہ گیارہ سیاسی جماعتیں زندگی بھر ان ڈیڑھ برسوں کے بوجھ سے نہیں نکل سکیں گی،پی ڈی ایم قیادت عمران خان کے بارے کہا کرتے تھے کہ عمران خان کو اقتدار کے تخت سے اتارنے کے لیے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی، عمران خان کے لیے خود عمران خان ہی کافی ہیں، یہ اپنی غلطیوں کے بوجھ تلے دب کر خود اقتدار سے محروم ہو جائیں گے،لیکن اب خود اتحادی حکومت اپنے غلط فیصلوں کے باعث اپنے ہی بوجھ تلے دبی جارہی ہے ،اس کے برعکس عمران خان کی خوش قسمتی دیکھیے کہ اقتدار سے محرومی والے دن سے آج تک ان کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ قدرت عمران خان کا ساتھ دینا چاہتی ہے اور دے رہی ہے، اتحادیوں کے سارے منفی حربوں کے باوجود عمران خان کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ، عوام میں ان کی مقبولیت کا ایک ثبوت 17جولائی کے پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں،اس کے بعدپوری دنیا تسلیم کررہی ہے کہ عمران خان پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں ،اس وجہ سے ہی موجودہ حکمران ٹولہ جلد انتخاب کرانے کے حق میں نہیں ہے، وہ چاہتا ہے کہ سال سوا سال کی آئینی مدت کے بعد ہی انتخابات ہوں ،تاکہ اس درمیان میں عوام کو کچھ نہ کچھ ڈیلیور کرسکیں اور اگلے انتخاب میں عمران خان کا مقابلہ کیا جاسکے، دوسری طرف عمران خان چاہتے ہیں کہ ملک میں فوری انتخاب منعقد کیے جائیں، تاکہ وہ دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرسکیں،دونوں کے درمیان سخت مقابلہ ہے ،اس مقابلے میں جیت کس کے حصے میں آتی ہے ،آنے والا وقت ہی بتائے گا ،تاہم ایک بات طے ہے کہ اس ہار جیت کے کھیل میں ایک چونچ اور ایک کی دم غائب ضرور ہو گی ۔
یہ ایک ایسا نازک مرحلہ ہے کہ جس میں عمران خان کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے،عمران خان کے سیاسی مخالفین ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ عوام کے مقبول لیڈر کومقتدر حلقوں سے متصادم کروانا چاہتے ہیں ،وہ عمران خان کو نااہل کرواکے نواز شریف کو لانا چاہتے ہیں تو یہ قوم کا نصیب ہے کہ اسے ایک نااہل کے بعد دوسرا نااہل ملتا ہے اور یہ کھیل بڑی خوبصورتی سے سلیکٹرز کھیلتے ہیں،عمران خان کو بھی اپنے چار سالہ حکمرانی کے دورا ن معلوم ہو ہی چکاہے کہ کسی کو نااہل اور کسی کو اہل کیسے کیا جاتا ہے، وہ سب کچھ جانتے ہیں ،اس لئے ہی بار بار سازش کی بات کررہے ہیں،لیکن انہیں ہر سازش کے بارے عوام کو بتانے کے ساتھ اسے ناکام بنا کر ہی کا میابی حاصل کرنا ہے ۔اتحادی قیادت جتنامرضی غیر جمہوری قوتوں سے مل کر سازش کر ے ،عمران خان مقبولیت کے جس گھوڑے پر سوار ہیں، شاید انہیں گرایا نہیںجاسکے گا ، اس وقت وزیراعلیٰ پرویز الہٰی اور پی ٹی آئی کا سارا فوکس اگلے الیکشن پر ہے اوروہ حکومت مخالف احتجاج کے ساتھ عوامی فلاح وبہبود کے منصوں کو بھی ترجیح دے رہے ہیں، تاکہ ووٹر ز کا اعتماد بھی حاصل رہے،دوسری جانب مسلم لیگ( ن )حکومت کا سکہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے شروع ہوکر فیض آباد چوک سے آگے نہیں بڑھ پارہا ہے،حکومت اپوزیشن قیادت کے سامنے بے بسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتشار کی راہ پر گامزن ہے، ملک کو انتشار سے بچانے کا واحد حل یہی ہے کہ شفاف الیکشن ہونے دیئے جائیں اور جو پارٹی برسراقتدار آے، اسے حکومت کرنے دی جائے،اب سازش کے ذریعے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کا رواج ختم ہونا چاہیے،یہ وقت ہے کہ سنبھل جائیں اور اپنی غلطیوں کا ازالہ کریں ،بصورت دیگر سب کچھ بکھر جائے گا اور کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button