کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں۔۔۔ تحریر:سجل ملک

علم دین شہید کے ساتویں پشت لہنا سنگھ سے ملتی ہے جو مغل بادشاہ نور الدین محمد جہانگیر کی زمانے میں مسلمان ہوئے علم دین 4 دسمبر 1907 بروز جمعرات کوچہ چابک سواراں محلہ سرفروشاں لاہور میں پیدا ہوئے۔ دوسری جگہ آپ کی تاریخ پیدائش 3 دسمبر 1908 روایت ہوئی ہے۔ غازی علم دین شہید ترکھان کا بیٹا تھا جس نے نہ جنت کی خواہش کی نہ زہدوں اور عابدوں کے قافلوں میں شامل ہوا نہ کسی غار میں تنہائی اختیار کی نہ پیشانیاں رگڑی نہ سر پٹخا نہ چلا کشی کی اور نہ طواف و سجود نہ حج نہ عمرہ نہ حرم کا مجاور نہ اسم اعظم کا وظیفہ نہ فلسفہ و منطق، نہ کوئی پیری و فقیری، نہ مرشد ،نہ علم و حکمت نہ تبلیغ نہ واعظ و نصیح اور نہ کوئی حلقہ تربیت ۔
دل میں عشق رسول ہو تو منزل ایک آہ کے فاصلے پر ہوتی ہے اور لمحے بھر میں دو جہانوں کا سفر طے ہو جاتا ہے یہ انعام خداوندی یہ کامیابی و کامرانی زندہ جاوید نام غازی علم دین شہید کا ہے جس نے ایک قدم انارکل ہسپتال روڈ پر رکھا اور دوسرے قدم پر جنت الفردوس میں پہنچ گیا۔
ہندو عاریہ سماج تنظیم جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے دل آزاد کتابیں شائع کرواتی رہتی تھی 1930 کے اواخر میں اس تنظیم کے سرگرم رکن راجپال نے کہ ایک ایسی دل آزاد کتاب شائع کی جس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان اقدس میں بے پناہ گستاخیاں کی گئی تھی کتاب کی اشاعت سے پورے ملک میں کہرام مچ گیا مسلمانوں نے احتجاجی جلسے جلسوس نکالنے شروع کر دیے ملزم راجپال کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور پھر راجپال کو چھ ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہوا بعد ازاں ہائی کورٹ نےملزم کو رہا کر دیا بلکہ اس کا جرمانہ بھی معاف کر دیا اس دل آزار کتاب کی اشاعت جاری رہی یکم اپریل 1929 کی رات ایک نوجوان اپنے بڑے بھائی کے ساتھ دلی دروازہ کے باغ میں جلسہ سننے چلے گئے جہاں سید عطا اللہ شاہ بخاری نے بڑی رکت انگیز تقریر کی دفعہ 144 کا نفاذ تھا جس کی رو سے کسی نوع کا جلسہ جلوس اور اجتماع نہیں ہو سکتا تھا لیکن مسلمانوں نے ایک قابل مثال اجتماع بیرون دلی دروازہ درگاہ شاہ محمد غوث کے احاطے میں منعقد کیا وہاں جو عاشق رسول نے ناموس رسالت پر دل گزار تقریر کی اس نے سامعین پر رقت طاری ہو گئی۔
ناموس رسالت پر اس تقریر نے پورے شہر میں آگ لگا دی لاہور میں بدنام زمانہ کتاب کے اس مصنف اور ناشر کے خلاف جا بجا جلسے ہونے لگے اپریل 1929 کو غازی علم دین راجپال کی دکان پر پہنچ گیا اور دریافت کیا راجپال کہاں ہیں راجپال نے کہا میں ہوں راجپال کیا کام ہے؟ غازی علم دین نے چھری نکال کر اس پر بھرپور حملہ کیا اور پھر پےدر پے وار کر کے اسے واصل جہنم کر دیا اور کہا کہ یہ کام تھا ۔
غازی علم کو گرفتار کر کے 10 اپریل 1929 سیشن جج کی عدالت میں پیش کیا گیا اور 22 مئی 1929 کو غازی علم دین کو سزائے موت سنا دی گئی، 20 مئی کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور 15 جولائی کو قائد اعظم محمد علی جناح اس مقدمے کی وکالت کے لیے ہائی کورٹ میں پیش ہوئے مگر ہائی کورٹ نے اپیل خارج کر دی جس کے نتیجے میں 31 اکتوبر 1929 کو میانوالی جیل میں علم دین شہید کو پھانسی دے دی گئی جسداطہر کو لاہور لایا گیا غازی علم دین شہید کو لاہور کے میانی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا اور ہمیشہ کے لیے ان کی محبت رسول امر ہو گئی۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہاں ایک ایمان افروز واقعہ جس کا ذکر 31 اکتوبر 1929 جس دن علم دین کو پھانسی ہونا تھی اس رات ڈیوٹی پر مامور وارڈن عبداللہ نے یوں بیان کیا ہے۔
31 اکتوبر 1929کی رات جس دن علم دین کو پھانسی ہونا تھی حسب معمول میں علم دین کی کوٹھری کا پہرہ دے رہا تھا میں کیا دیکھتا ہوں کہ غازی علم دین کا کمرہ خوبصورت اور دلکش روشنیوں سے بھر گیا ہے اور پھر کیا دیکھتا ہوں کہ نور کا ایک بادل ہے جو تیزی سے آسمانوں کی طرف چلا گیا۔ چنانچہ میں بھاگم بھاگ غازی کی کوٹھری کی طرف آیا اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پورا کمرہ محسور کن خوشبو سے معطر ہے غازی حالت سجدہ میں تھے اور زور و قطار رو رہے تھے تھوڑی دیر بعد اٹھے تو میں نے ان کے قدم بوسی کی اور خود بھی بے اختیار ہونا شروع کر دیا۔ پھر میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ کیا ماجرہ تھا میرے بے حد اصرار پر انہوں نے بتایا کہ کل مجھے پھانسی ہو رہی ہے تو میری حوصلہ افزائی کے لیے حضرت محمد مصطفٰی اپنے صحابہ کرام کے ساتھ تشریف لائے اور محبت و شفقت فرمائی، اور میرے سر پر دست مبارک رکھ کر فرمایا پھانسی کے وقت جیل حکام تم سے تمہاری آخری خواہش پوچھیں گے تو انہیں کہنا پھانسی کے وقت میرے ہاتھ کھول دیں میں پھانسی کا پھندہ چوم کر اپنے گلے میں خود ڈالنا چاہتا ہوں تاکہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ مسلمان اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنا بڑی سعادت سمجھتے ہیں دوسرا یہ کہ تم روزہ رکھ کر آنا میں تمہارا صحابہ کرام اور فرشتوں کے ساتھ حوض کوثر پر انتظار کروں گا۔
زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں حق کے نام پر
اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button