رزق کی کنجیاں
ہم سب رزق میں وسعت اور برکت کی خواہش تو رکھتے ہیں، مگر قرآن وحدیث کی روشنی میںرزق کی وسعت کے اسباب سے ناواقف ہیں۔ صرف دنیاوی جد وجہد، محنت اور کوشش پر انحصار کرلیتے ہیں۔ لہذا قرآن وحدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت اور برکت کے چند اسباب تحریر کررہا ہوں۔ اگر ہم دنیاوی جد وجہد کے ساتھ‘ اِن اسباب کو بھی اختیار کرلیں، تو اللہ تعالیٰ ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ ، جو ہر شخص کی خواہش ہے :
۱) استغفار وتوبہ (اللّہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگنا) :
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا :پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لئے باغ اور نہریں بنائے گا۔ (سورۂ نوح ۱۰۔۱۲) مفسرین لکھتے ہیں کہ سورہ ٔنوح کی ان آیات (۱۰۔۱۲)، سورۂ ہود کی آیت نمبر (۳) ، اور آیت نمبر (۵۲) میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی مانگنے سے رزق میں وسعت اور برکت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کثرت سے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی، اللہ تعالیٰ اس کو ہر غم سے نجات دیں گے، ہر مشکل سے نکال دیں گے اور اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم وگمان بھی نہ ہوگا۔ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند حاکم)
۲) تقوی (اللّہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارنا):
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے (ہر مشکل سے) نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کو وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ (سورۂ الطلاق۲۔۳)
۳) اللّہ تعالیٰ پر توکل:
توکل (بھروسہ) کے معنی امام غزالی ؒنے یوں لکھے ہیں : توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اسی پر ہو جس پر توکل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔ (احیاء العلوم ۴ ۔ ۲۵۹) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے ،وہ اس کو کافی ہے۔ (سورۂ الطلاق ۳) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ پر اسی طرح بھروسہ کرو جیسا کہ اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)۔ یاد رکھیں کہ حصولِ رزق کے لئے کوشش اور محنت کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کو بھی حصول رزق کے لئے گھونسلے سے نکلنا پڑتا ہے۔
۴) اللّہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے فارغ ہونا:
اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم دن رات مسجد میں بیٹھے رہیں اور حصول رزق کے لئے کوئی کوشش نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجالاتے ہوئے زندگی گزاریں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لئے اپنے آپ کو فارغ کر‘ میں تیرے سینے کو تونگری سے بھردوں گا، اور لوگوں سے تجھے بے نیاز کردوں گا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، مسنداحمد)
۵) حج اور عمرہ میں متابعت (بار بار حج اور عمرہ ادا کرنا) :
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پے درپے حج اور عمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ ( ترمذی، نسائی)
۶) صلہ رحمی (رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا) :
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے رزق میں کشادگی چاہے ،، اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاری) صلہ رحمی سے رزق میں وسعت اور کشادگی ہوتی ہے۔ اس موضوع سے متعلق ‘ حدیث کی تقریباً ہر مشہور ومعروف کتاب میں مختلف الفاظ کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات موجود ہیں۔
۷)اللّہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا :
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : اور تم لوگ (اللہ کی راہ میں) جو خرچ کرو، وہ اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ (سورۂ سبا ۳۹) احادیث کی روشنی میں علماء کرام نے فرمایاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں ملے گا۔ دنیا میں بدلہ مختلف شکلوں میں ملے گا، جس میں ایک شکل رزق کی کشادگی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کی اولاد! تو خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ (مسلم)
میرے عزیز بھائیو ! جس طرح حصولِ رزق کے لئے ہم اپنی ملازمت، کاروبار اور تعلیم وتعلم میں جد وجہد اور کوشش کرتے ہیں، جان ومال اور وقت کی قربانیاں دیتے ہیں۔اسی طرح قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کئے گئے اِن اسباب کو بھی اختیار کریں ، اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری روزی میں وسعت اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر یہ دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین