ایک ننھا بچہ ۔۔۔ تحریر: اسامہ غیاث قریشی

ایک بچہ جسکا نام حمزہ تھا عمر 2سال6 مہینے بہت پیارا بچہ تھا۔ گلی محلے کی ہر عورت ، جوان، بچے سب اس سے بہت محبت کرتے تھے، پیارا ہی اتنا تھا کہ ہر کسی کو اس پے پیار آتا تھا، ایک دن اسکی ماں اور وہ چھت پے تھے ماں شاہد کسی کام میں مصروف تھی کے اچانک نیچے سے اسے کسی نے آواز دی تمہارا بیٹا چھت سے گر گیا ہے ۔ ماں بھاگتی ہوئی نیچے گئی تو اسکا بیٹا خون میں لت پت پڑا تھا ۔ محلے کے لوگوں نے اسکو گاڑی میں ڈالا اور قریبی ہسپتال میں لے گئے۔ جہاں پہنچنے پر اسکو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔ کیونکہ آپ سب جانتے ہیں پاکستان کے ہسپتالوں کی حالت کیسی ہے اور اس 2 سال کے بچے کی سانسیں جو آدھی ختم ہو چکی تھی اسکو وینٹی لیٹر کی ضرورت تھی۔

ڈاکٹرایسے گھوم رہے تھے جیسے انکے اندر دل نہیں یا جیسے خدا کچھ دیکھ نہیں رہا ۔ وینٹی لیٹر نہ ملنے پر اسکو ایک دوسرے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ جہاں اسکو وینٹی لیٹر تو مل گیا لیکن اسکی سانسیں جو کچھ دیر پہلے چل رہی تھی وہ ختم ہو چکی تھی وہاں پہنچنے پر اسکو ویٹی لیٹر تو مل گیا لیکن اسکی سانسیں تو کب کی جا چکی تھی اس بچے کی روح تو جنت کی وادیوں میں گھوم رہی تھی۔ اس بچے کو وہ پروردیگار اپنے پاس بلا چکا تھا۔ ڈاکٹرز نے ماں کے دل کو تسلی دینے کیلئے اس کو وینٹی لیٹر پر رکھ دیا اور کہہ دیا کہ ابھی یہ ٹھیک ہے لیکن پاس کھڑے ایک نوجوان کو اسنے بلا کے کہہ دیا تھا کہ وہ مر چکا تھا۔ اور وہ لڑکا بظاہر تو جوان تھا لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس 2 سال کے بچے کا جا کہ اسکی ماں کو بتاتا کہ وہ بچہ جس نے دنیا میں ابھی ابھی آنکھ کھولی تھی وہ صرف اپنی یادیں دینے آیا تھا وہ صرف کچھ وقت کیلئے آیا تھا وہ صرف2دن کیلئے یہ بتانے آیا تھا کہ فرشتے ایسے ہوتے ہیں وہ آج اس دنیا سے چلا گیا۔ اتنی ہمت اس لڑکے میں نہیں تھی ۔ لوگ کہتے ہیں جوان ہو روتے کیوں ہو لیکن اگر وہ لمحہ کوئی دیکھ جاتا تو وہ بھی پھوٹ پھوٹ کے روتا۔وہ جوان لڑکا بچوں کی طرح اس دن رویا ۔خیر جب ڈاکٹرز نے دیکھا کسی میں ہمت نہیں اسکی ماں کو کچھ بتانے کی تو اس نے خود ہی بتا دیا کہ وہ فوت ہو گیا۔ ڈاکٹرز کتنی ہمت والے ہوتے ہیں کیسے اس نے یکدم اس کی ماں سے کہہ دیا کہ اسکا بٰیٹا جو کل ہی دنیا میں آیا تھا آج دنیا سے چلا گیا۔

جیسے ہی ڈاکٹر نے اسکی ماں کو بتایا اسکی ماں ایسے تڑہی جیسے ایک مچھلی کو پانی سے باہر نکال دو تو وہ ٹرپتی ہی۔ اسکی ماں کو روتا دیکھ کہ میں نے ماں کی ممتا کو جان لیا۔ اور اس سے ذیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ اس بچے کا والد ملک میں نہیں تھا اسنے اپنے بچے کو آخری دفعہ 40دن کا دیکھا تھا۔ وہ یہ سوچ کر ہاہر چلا گیا کہ میں اپنے بیٹے کو جوان کروں گا اسکو پڑھاوں گا ۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ آخری دفعہ اپنے بیٹے کو دیکھ رہا ہے۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ جب آئے گا تو وہ کھلونے جو اسنےاپنے بیٹے کو لے کے دیے تھے وہ ایسے ہی کسی کونے میں پڑے ہوں گے وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ جب واپس آئے گا تو اسکا بیٹا جنت میں جا چکا ہوگا۔

وہ نہیں جانتا تھا کہ جب وہ واپس آئے گا تو اسکا بٰیٹا اسے پاپا نہیں بلائے گا ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ جب واپس آئے گا تو اسکا بیٹا اس دنیا سے کہیں دور چلا جائے گا۔بات آگے بڑھاتا ہوں اس بچے کے جسدخاکی کو گھر پہنچایا گیاوہاں موجود ایک لڑکے کا کہنا ہے کہ اس نے وہاں موجود ایسے ایسے لوگوں کو روتے دیکھا جو پتھر کہلواتے تھے۔ایک طرف اس بچے کی تدفین ہو رہی تھی اور دوسری طرف اس بچے کا والد جو باہر ملک میں تھا وہ ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ میں جتنا بھی درد لکھوں میرا قلم وہ درد نہیں لکھ پائے گا جو درد اسکی ماں اور اسکے باپ نے سہا ہے۔یہ پیٹ بھی کیا چیز ہے کہ اس پیٹ نے ایک باپ کو اپنے اس بیٹے کو آخری بار دیکھنے بھی نہیں دیا جو صرف 2 سال کی عمر میں جا رہا تھا ۔ اب آخر میں اس ہسپتال میں موجود جوان لڑکا کا زکر کرتا ہوں جس کو ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ اسکی ماں کو بتاو کہ اسکا ننا سا بیٹا جو ابھی آیا تھا وہ چلا گیا۔ وہ لڑکا میں تھا اور میرا نام اسامہ غیاث قریشی ہے۔ بھلا مجھ جیسے شخص میں اتنی ہمت کہاں کہ وہ ایک ماں سے جا کہ کہہ دے کہ اسکا دو سال کا بچہ جس کی عمر دودھ پینے کی ہے وہ موت کا گلےلگا چکا ہے۔ وہ دکھ اور وہ درد وہی سمجھ سکتا ہے جسکا وہ بیٹا تھا۔اللہ پاک سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button