ماں بولی ۔۔۔ تحریر: مراد علی شاہد

بچے نے بڑے ہی معصومانہ اندازمیں اپنے باپ سے پوچھا کہ بابا’’ماں بولی کو ماں بولی کیوں کہا جاتا ہے؟باپ بولی کیوں نہیں کہتے؟بچے سے کہیں بڑھ کر معصومیت کے ساتھ ساتھ ڈرے اور سہمے لہجہ میں باپ نے جواب دیا کہ بیٹا تمہاری ماں تمہارے باپ کو بولنے کب دیتی ہے‘‘ماں بولی جسے ادبی اصطلاح میں first language معاشرتی لحاظ سے native language جبکہ عمومی طور پر جو بھی زبان ماں اپنے بچے کو پیدائش سے جوان ہونے تک سکھا دے اسے مادری زبان یا ماں بولی کہا جاتا ہے۔ایک بار میں نے اپنے دوست کے بچے کو لغویات کہتے ہوئے سنا تو دوست سے کہا تم اسے تمیز کیوں نہیں سکھاتے ابھی تو بچہ ہے تودوست جھٹ سے بولا کہ ’’ماں کی بولی ‘‘بولتا ہے۔اس دن سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ جب تک ماں ٹھیک نہیں ہوگی ماں بولی بھی ٹھیک نہیں ہو گی۔ویسے عجب بات ہے کہ عورت بیوی بنتی ہے تو بندے کی ماں بہن ایک کر دیتی ہے،ماں بنے تو بچے کی ماں بولی کی ایک کردیتی ہے۔عورت ماں بنتے ہی ’’ماں بولی ‘‘ کو بھی جنم دیتی ہے یہ ایک عورت کے لئے اعزاز کی بات ہے اور بندے کے لئے باعث صد شکر کہ ماں بنتی ہے، تو ہی خاموش ہوتی ہے وگرنہ بولتے ہی رہتی ہے۔کسی سمجھدار خاوند سے پوچھیں کہ گھر میں کون بولتا ہے تو فورا کہے گا میں تو خاموش ہی رہتا ہوں۔
پڑھے لکھے خاوند سے پوچھا گیا کہ گھر میں آپ اردو بولتے ہیں ؟
نفی میں سر ہلاتے ہوئے گویا ہوا کہ ’’نہیں‘‘
ظاہر ہے آپ دونوں میاں بیوی پڑھے لکھے ہیں تو انگریزی میں بات کرتے ہوں گے۔
بالکل بھی نہیں۔
تو پھر پنجابی ہی رہ جاتی ہے۔
خاوند وہ بھی نہیں۔
تو پھر سرگھرمیں کون سی بولی بولتے ہیں؟
خاوند’’گھر میں صرف میری بیوی بولتی ہے‘‘
ماں بولی ’’گڑ‘‘کی طرح میٹھی ہوتی ہے،اسی لئے ماں میٹھی اور بیوی ترش ہوتی ہے ۔جیسے چینی گڑ کو کھا گئی ایسے ہی انگریزی ہماری ماں بولی کو بھی کھا گئی ۔آجکل مارکیٹ میں نہ چینی دستیاب ہے اور نہ ہی ماں بولی سکھانے والی مائیں۔آجکل کی مائیں بچوں کو جو ماں بولی سکھا رہی ہیں وہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ،ضرب المثل پر پورا اترتی ہیں جیسے کہ ’’چلو بچہ اپنے ہینڈ واش کرلو۔یہ لو بیٹا ’’ملک(دودھ)‘‘ پی لو۔بچے ’’ڈور(دروازہ)‘‘کھول دو وغیرہ وغیرہ۔نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔میرے ہم عصر جانتے ہوں گے کہ ہمارے بچپن میں دو ہی آوازیں کانوں کو سنائی دیتی تھیں،ماں کی یا ان کے جوتے کی۔ماں اپنی ماں بولی میں ہر وہ چوری بھی منوا لیتی تھیں جو کہ پڑوس کے بچوں نے کی ہوتی۔اسی لئے تو پرانی مائیں کہا کرتی تھیں کہ ’’میں تمہاری ماں ہوں‘‘۔ایک روز دوست کے گھر سے اس کی بیوی یہی فقرہ دہرا رہی تھی ،اس دن مجھے یقین ہو گیا کہ واقعی زمانہ بدل گیا ہے۔میرا مشاہدہ ہے کہ انگریزی،جرمن ،فرنچ کو لاکھ ہونٹ سکیڑ کر،منہ ٹیڑھا کر کے اور گلا صاف کر کے بولیں راوی کنارے بسنے والوں کی ماں بولی میں ’’مڑ‘‘کی جھلک کہیں نہ کہیں سے رنگ دکھا ہی جاتی ہے۔’’بار‘‘کے لوگ بھلے پاکستان سے باہر ہوں ’’مڑ‘‘کا تڑکا اپنی انگریزی میں ضرور لگا لیتے ہیں۔جو کہ جچتا بھی ہے۔
ماں بولی کے سلسلہ میں سکھوں کو ضرور خراج تحسین پیش کرنا چاہئے کہ انہوں نے ماں اور ماں بولی سے ناطہ نہیں توڑا،اسی لئے وہ سکھ کے بچے کہلاتے ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ سکھ کا بچہ اور کھوتے کا بچہ بچپن میں حسین ہوتے ہیں پتہ صرف بولنے سے چلتا ہے کہ دونوں میں کون زیادہ حسین ہے۔ایک ہم ہیں نہ گھر کے نہ گھاٹ کے۔آدھی چھوڑ ساری کو جائے،آدھی ملے نہ پوری پائے۔میرا ایک دوست آدھی دنیا گھوم آیا مگر جب بھی وہ پاکستان میں آتا ہے ڈھیٹ پنجابی میں گالیاں بکتا ہے،میرے منع کرنے پر ہمیشہ ایک ہی جواب دیتا ہے کہ ’’ یار ہم کتنے بھی ہفت زبان ہو جائیں جو مزہ گالیاں نکالنے کا ماں بولی میں آتا ہے بدیسی زبان میں کہاں‘‘بدیسی زبان میں گالی نکال بھی رہے ہوں تو لگتا ہے ’’ترلا(منت) ‘‘ڈالا جا رہا ہے۔پردیس میں رہنے والے ماں باپ کا ،پاکستان ہائیڈ پارک ہے۔کچھ ماں باپ خاص کر یورپ میں رہنے والے تو ایسے ہیں کہ پاکستان پہنچ کر گھر جانے کا انتظار بھی نہیں کرتے،ایئر پورٹ کو ہی ہائیڈ پارک بنا کر بچوں کی وہ ’’لتریشن پریڈ‘‘کر کے من ہلکا کرتے ہوئے ایسے ایسے مغلظات بولتے ہیں کہ ہائیڈ پارک بھی شرما جائے ۔
لڑائی،گالی اور حلوہ کا سواد گرما گرم ہوں تو آتا ہے۔حلوہ،گالی اور لڑائی ٹھنڈی ہو جائے تو سب کا سواد جاتا رہتا ہے۔میرے اردو کے پروفیسر اکثر کہا کرتے تھے کہ لڑائی دُور سے دیکھنے اور گالی نزدیک سے سننے کا اپنا ہی سواد ہے۔لیکن بہتری اسی میں ہے کہ گالی سے دُور اور لڑائی سے بہت دُور رہا جائے۔ماں بولی پنجابی بولنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’سواد‘‘اور’’گاہل‘‘اس وقت تک جاری رکھیں جب تک منہ نہ بھر جائے۔لیکن
یاد رکھئے،ماں بولنے دے یا نہ دے،بولنا ماں ہی سکھاتی ہے۔اور جو بول ماں سکھا دیتی ہے وہ تاحیات نقشِ حجر کی طرح انسان کے دماغ پر منقش رہتے ہیں۔زمانہ کے رطب و یابس میں اپنی سانسوں کے آنچل میں ماں ہی چھپاتی ہے۔تپتے صحرائوں میں آبلہ پاپر اکسیر مرہم مامتا ہی لگا تی ہے۔عصر حاضر کیا خلدِ آشیاں میں ہماری پہچان بھی ماں کے دم قدم سے ہی ہوگی۔جب ماں کی عظمت،عزت۔تقدس،توقیر وتکریم کا یہ عالم ہے تو سوچئے ماں بولی کا رتبہ کیا ہونا چاہئے۔لہذا ماں اور ماں بولی سے کبھی نہیں شرمانا چاہئے۔یقین جانئے جو اظہارِ احساس ماں کے سامنے ماں بولی میں ہوتا ہے کوئی اور زبان اس کی متحمل ہو بھی نہیں سکتی۔اگرچہ ماں بیانِ احساس سے قبل ہی سب جان لیتی ہے۔اب آپ بھی جان چھوڑئیے ،ہفت زبان سیکھئے مگر ماں بولی کو ماں ایسا عزیز جانئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button