عوام کو ایک کروڑ نوکریاں بھی ملیں گی اور گھر بھی ، وزیراعظم

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم عمران خان نے عوام کو ایک کروڑ نوکریاں دینے اور گھر فراہم کرنے کا اعادہ کر لیا۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کو دئے گئے خصوصی انٹرویو میں جب وزیراعظم عمران خان سے نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں پچاس لاکھ گھر دینے سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ 5 سال میں نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، ہمارے پانچ سال میں نوکریاں ایک کروڑ اور گھر 50 لاکھ سے بھی زیادہ ہوجائیں گے، بنڈل آئی لینڈ اور راوی اربن پراجیکٹ ہمارے دو بڑے منصوبے ہیں جس سے یہ ممکن ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی تاریخ میں سیمنٹ کی

پیداوار سب سے زیادہ ہوچکی ہے، یہ دو نئے شہر بسنے جارہے ہیں، راوی پراجیکٹ کے لیے لوگوں سے زمینیں لینے کے کوئی زبردستی نہیں کی جارہی، اس حوالے سے غلط خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ ان منصوبوں سے نوکریاں ملیں گی اور سمندر پار پاکستانی یہاں سرمایہ کریں گے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورت حال بہتر ہوگی۔عمران خان نے کہا کہ بی آر ٹی کا ایشیائی ترقیاتی بینک کا منصوبہ ہے، اس منصوبے پر ہمیں سبسڈی نہیں دینا پڑے گی، اس منصوبے کی شفافیت کے حوالے سے کوئی بھی سوال اٹھے گا تو ہم تحقیقات کروانے کے لیے تیار ہیں۔عمران خان نے کہا کہ نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے کسی کا دباؤ نہیں تھا، ہم نے جو رپورٹس دیکھیں تو سوچا کہ کیا ایک آدمی کو اتنی بیماریاں ہو بھی سکتی ہیں؟ شہباز شریف نے ہائیکورٹ کو ضمانت دی کہ وہ علاج کروانے جارہے ہیں، مشرف دور میں بھی یہی انہوں نے کیا، ہم سات ارب روپے کی ضمانت چاہتے تھے لیکن عدالت نہیں مانی۔انہوں نے کہا کہ میرے اوپر نہ کوئی دباؤ ہے نہ کوئی ڈال سکتا ہے، دباؤ میں وہ آتا ہے جسے کرسی پر جمے رہنے کا مسئلہ ہے، فوج اور آئی ایس آئی کو سب پتا ہوتا ہے، جو میں فون کرتا ہوں یا کوئی رابطہ کرتا ہے انٹیلی جینس ایجنسی کو اس بارے میں معلوم ہوتا ہے، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی وزیر اعظم کیا کررہا ہے، جو لوگ کرپشن کرتے ہیں وہی دباؤ میں آتے ہیں۔اپوزیشن کے خلاف نیب کیسز کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ تمام کیسز ہمارے آنے سے پہلے

بنائے گئے تھے، نیب ہمارے ماتحت نہیں ہمارا اختیار صرف جیلوں پر ہے۔عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کا پہلے دن سے ایجنڈا ایک ہی تھا، ہم تو پہلے دن الیکشن پر تحقیقات کے لیے آمادہ تھے لیکن یہ اس کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں آئے تک نہیں، پھر فیٹف کے لیے ہونے والی قانون سازی میں 34 ترامیم کا مطالبہ کیا جس کا مقصد نیب ختم کرنا تھا، جب ہم کہتے ہیں کہ این آر او نہیں دیتے تو اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ احتساب کے ان قوانین میں تبدیلی نہیں کرنے دیں گے، نہ صرف نیب بلکہ ایف آئی اے اور دیگر اداروں میں جو تحقیقات چل رہی ہیں ہم چاہتے ہیں وہ تکمیل تک پہنچیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button