روس جانے پر اعتراض یوں اٹھایا گیا جیسے ہم ان کے نوکر ہیں، عمران خان

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ روس جانے پر اعتراض یوں اٹھا یا گیاجیسے ہم ان کے نوکر ہیں ، کہا گیا عمران خان نے روس جانے کا اکیلے فیصلہ کیا، جبکہ حکومتی اور عسکری قیادت کی مشاورت شامل تھی، یورپی یونین کے لوگ بھی روس گئے،یہ اپنے تین وفادار غلاموں کے کہنے پر کہہ رہے ہیں۔قوم سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان آج فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے، قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ میری طرح کا آدمی سیاست میں کیوں آیا؟ میری طرح کے آدمی کی اگر زندگی دیکھیں اس سے پہلے کوئی سیاست میں نہیںآ یا،

قائداعظم سب سے بڑے سیاستدان تھے، اس سے پہلے وہ ہندوستان میں بڑے وکیل تھے۔سیاست سے پہلے ان کا کوئی نام نہیں جانتا تھا۔لیکن اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اللہ نے سب کچھ دیا، مجھے آج بھی کسی چیز کی ضرورت نہیں، میں پاکستان کی پہلی نسل میں ہوں، میرے والدین غلامی کے دور میں پیدا ہوئے، میرے والدین نے پاکستان مومنٹ میں شرکت کی، وہ مجھے کہتے تھے کہ آپ خوش قسمت ہو کہ آزاد ملک میں پیدا ہوئے ہو۔ خوددار لوگوں کو انگریز کی غلامی بری لگتی تھی۔یہ خودداری آزاد قوم کی نشانی ہوتی ہے، سیاست میں اس لیے آیا، ایک سیاسیات کا سٹوڈنٹ تھا، میں نے سوچا ہمارا ملک علامہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم کے مقصد کے مطابق پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے، یہ قرارداد پاکستان میں لکھا ہے، جب ہم قرارداد پاکستان کہتے ہیں تو یہ سیدھا ریاست مدینہ کے ماڈل کی طرف چلا جاتا ہے۔سیاست میں آنے کے میرے تین مقاصد تھے، نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ انصاف نہ کرنے سے قومیں تباہ ہوجاتی ہیں، انصاف اور انسانیت فلاحی ریاست کی بنیاد ہے۔تیسرا خودداری میرا مقصد تھا۔ غلامی پیسے کی ہو، یا خوف کی ہو، یہ اللہ سے شرک ہے، اگر میرے اندر اللہ ایمان نہ ڈالتا تو میں سیاست میں کیوں آتا؟ 14سال میرا مذاق اڑتا رہا، مجھے بڑے لوگو ں نے کہا کہ آپ کو سیاست میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نوجوانوں کو بتانا چاہتا ہوں غور سے سنو، مولانا رومی کی کہاوت ہے کہ جب اللہ نے آپ کو پر دیے ہیں تو چیونٹیوں کی طرح کیوں رینگ رہے ہیں؟ شیطان کو جنت سے اس لیے نکالا گیا

کہ اس میں تکبر تھا،ہم سب سے بڑے شرک پیسے اور خوف کی پوجا کرتے ہیں، یہ خوف کا بت ہے، ہم انسان چیونٹیوں کی طرح رینگتا رہتا ہے۔ہم چھوٹے تھے تو پاکستان تیزی کے ساتھ اوپر جا رہا تھا ، جنوبی کوریا، ملائیشیا ، مڈل ایسٹ کے لوگ یہاں سیکھنے کیلئے آتے تھے۔ پھر میں اپنے ملک کو ذلیل ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نے ہمیں عظیم مخلوق بنایا، شرائط بھی رکھی ہیں، اللہ فرماتا کہ اگر تم نے اوپر جانا ہے تو مقابلہ کرنا ہوگا، اقبال نے شاہین کی اسی لیے مثال دی۔ہم نماز میں بھی یہی مانگتے کہ یااللہ ہمیں اس راستے پر چلا جن کو تونے نعمتیں بخشیں۔ میں پاکستان میں

بچوں کو اسی لیے سیرت نبوی ﷺ پڑھانا چاہتا ہوں ۔ لیکن ہم دوسرے راستوں پر چل رہے ہیں، کہ فلاں ملک نے حکم دیا تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔ میں نے 25سال سیاست شروع کی تو ہمیشہ ایک بات کی کہ نہ میں جھکوں گا اور نہ ہی قوم کو جھکنے دوں گا۔ مجھے اقتدار ملاتو فیصلہ کیا کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہوگی، جو کہ پاکستان کے مفاد میں ہوگی، اس کا مطلب اینٹی امریکا ، یورپ یا اینٹی ہندوستان نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کبھی اس معاشرے یا ملک کے خلاف نہیں ہوسکتا، میں ان ممالک کی پالیسیوں پر تنقید کرتا ہوں۔ جب امریکا کی جنگ میں پاکستان نے شرکت کی، تو کہا گیا کہ اگر امریکا

کی حمایت نہ کی تو بھوکے یا زخمی شیر کی طرح ہمیں ہی نہ مار دے۔ میں نے کہا کہ ہمیں نائن الیون کی جنگ میں بالکل نہیں جانا چاہیے، کوئی پاکستان شامل نہیں ہے۔جیسے ہی سوویت یونین کا جہاد ختم ہوا تو امریکا چلا جاتا ہے سویت یونین ہار جاتا ہے، لیکن دو سال بعد امریکا ہم پر پابندیاں لگا دیتا ہے، پھر نائن الیون آجاتا ہے، ہم سب دہشتگردی کے خلاف ہیں، لیکن جو ہم نے حمایت کی، جو پاکستانیوں کی جانوں کی قربانی دی گئی، کسی اتحادی نے پاکستان جیسی قربانی نہیں دی کہ پاکستان نے 80ہزار لوگ مروائے۔ میں قبائلی علاقے کی تاریخ جانتا ہوں، وہ سب سے پرامن علاقہ ہے، لیکن ہمارے

امریکی جنگ میں شرکت سے جو قبائلیوں کے ساتھ ہوا، تصور نہیں کرسکتے۔ پہلے ہم کہتے تھے کہ جہاد کرنا بڑی چیز ہے، لیکن جب امریکی وہاں پہنچے تو پھر اس کو دہشتگردی کہا گیا۔پھر پاکستان میں جو خودکش حملے ہوئے، ہسپتالوں میں گیا، کوئی ٹانگوں سے چل نہیں سکتا، کسی کے ہاتھ نہیں کوئی جل گیا۔ان تمام قربانیوں کا پاکستان کو کوئی کریڈٹ ملا؟ کہ شکریہ پاکستان۔۔افغانستان میں کہا گیا کہ پاکستان کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے ہم نہیں جیت سکتے۔ پاکستان ڈرون حملوں کے عذاب سے گزرا۔ میں بیک گراؤنڈ بتانا چاہتا ہوں، جب میں کہتا تھا کہ یہ پاکستان کی جنگ نہیں ہے تو مجھے طالبان خان کہا گیا، کبھی کسی سینئر سیاستدان نے کوئی بات نہیں کی۔ڈرے ہوئے کہ امریکا ناراض نہ ہوجائے۔کس قانون میں لکھا ہوا ہے کہ کوئی آئے ڈرون حملہ کرے اور لوگوں کو مار دے، جج بھی خود بن جائے۔ ہماری حکومتیں اس جرم میں شامل رہیں۔میں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کے عوام کی بہتری میں ہوگی، انڈیا کے خلاف اس لیے پالیسی بنائی کہ جب کشمیر کا اسٹیٹ توڑا، پہلے ہمیشہ دوستی کی کوشش کی۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button