سانحہ مری، وزیراعلیٰ پنجاب نے ذمہ دار افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا

لاہور(نیوز ڈیسک) وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحہ مری کے ذمہ دار افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا ہے، ڈپٹی کمشنر، سی پی او، سی ٹی او راولپنڈی اور اے ایس پی مری سمیت 15 افسران کیخلاف انضباطی کاروائی کی جائے گی، انکوائری کمیٹی نے ان افسران کو غفلت اور کوتاہی کا مرتکب قرار دیا تھا۔ دنیا نیوز کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا کہ سانحہ مری بہت بڑا واقعہ ہے، ڈپٹی کمشنر، سی پی او، سی ٹی او راولپنڈی اور اے ایس پی مری کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، کمیٹی کی سفارشات پر15 افسران کیخلاف انضباطی کارروائی کی جارہی ہے۔سانحہ مری کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی،

انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں غفلت اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی تھی۔عثمان بزدار نے کہا کہ قوم سے سانحہ مری کی شفاف انکوائری کا وعدہ کیا تھا، قوم سے کیا وعدہ پورا کردیا ہے۔ دوسری جانب نیوز ایجنسی کے مطابق لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے سانحہ مری پر دائر تین درخواستوں پر اگلی پیشی پر مری میں موجود سنو بائیکس کا ریکارڑ طلب کرتے ہوئے کہاہے کہ انتظامیہ ہوٹل ایسوسی ایشن کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرے، مری میں لوگوں کو جہاں جگہ ملتی ہے عمارتیں کھڑی کردیتے ہیں۔بدھ کو کیس کی سماعت جسٹس چودھری عبدالعزیز نے کی ۔کمشنر، ڈی سی، آر پی او، سی پی او، اے سی مری اور چیف ٹریفک آفیسر عدالت میں پیش ہوئے ۔ عدالت نے کہاکہ کمشنر صاحب یہ کس کی ذمہ داری تھی کیا برف باری کی الرٹ تھی، کیا آپ نے تحقیقاتی رپورٹ دیکھی،مسئلہ کب شروع ہوا، ۔ کمشنر راولپنڈی نے کہاکہ میں نے رپورٹ دیکھی سات اور آٹھ کی درمیانی شب برفانی طوفان آیا، پانچ تاریخ کو محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کی، مکینیکل ڈویژن، محکمہ سی این ای اور محکمہ شاہرات پنجاب نے پلاننگ میٹنگ نہیں کی۔انہوں نے کہاکہ انتیس مشینوں میں سے سولہ مشینیں آپریشنل تھیں، برف ہٹانے والی مشینوں کے دس آپریٹر موجود نہیں تھے۔ عدالت نے کہاکہ سردیوں میں مری کیلئے کوئی ایس او پی ہے، جو چیز آپ کے علم میں نہیں وہ چیز اگلی پیشی پر لکھ کر عدالت کو فراہم کریں۔ ڈی سی راولپنڈی نے کہاکہ مشینوں کے 32 آپریٹر ہونے چاہئیے تھے جو شرٹس میں کام کرتے ہیں۔عدالت نے کہاکہ کیا یہ سب کچھ

بائیس افراد کے مرنے کے بعد معلوم ہوا،برف صاف کرنے والی مشینوں اور آپریٹرز کا مکمل ریکارڑ عدالت میں اگلی پیشی پر جمع کرائیں۔ عدالت نے کہاکہ برف صاف کرنی والی مشینیں کہاں کہاں لگی تھیں اور ہنگامی صورت حال کا کیا پلان تھا، مشینوں کیلئے کتنا ڈیزل میسر تھا اور نمک پھینکنے کا کیا کام کیا گیا۔عدالت نے کہاکہ مری میں تعمیرات کا کیا ایس او پی ہے، اے سی صاحب مری کو راجا بازار بنادیا گیا ہے بیڑا غرق کردیا ہے، اگلی سماعت پر موٹروے والوں کو بھی بلائیں۔عدالت نے کہاکہ ایک سانحہ کے بعد ہم دوسرے سانحہ کے انتظار میں کیوں ہوتے ہیں، یہ آرمڈ فورسز کا کام نہیں کہ آکر ٹریفک چلائیں۔

عدالت نے سوال اٹھایاکہ مری کے ہوٹل کون ریلو لیٹ کرتا ہے،ضلعی ایمرجنسی کمیٹی کہاں تھی ۔ ڈپٹی کمشنر نے کہاکہ محکمہ موسمیات نے تیز برف باری کی پیشنگوئی کی تھی برفانی طوفان کی نہیں۔ ڈی سی نے کہاکہ پچاس سے ساٹھ میل فی گھنٹہ رفتار سے ہوا چلی۔عدالت نے کہاکہ صاحب آپ نے لاپرواہی کی۔عدالت نے سی ٹی او سے سوال اٹھایاکہ مری میں ٹریفک کنٹرول کرنے کیلئے کتنی مو ٹر سائیکلیں ہیں۔ سی ٹی او نے کہاکہ ہمارے پاس مری میں چار سنو بائیکس ہیں۔ دور ان سماعت عدالت نے اگلی پیشی پر مری میں موجود سٴْنو بائیکس کا ریکارڑ طلب کرلیا۔عدالت نے کہاکہ انتظامیہ ہوٹل ایسوسی

ایشن کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرے، مری میں لوگوں کو جہاں جگہ ملتی ہے عمارتیں کھڑی کردیتے ہیں۔ڈی سی راولپنڈی نے کہاکہ مری میں ہوٹلوں کو محکمہ سیاحت پنجاب ریگولیٹ کرتا ہے جو مری میں نہیں، تیرہ سو افراد کو ضلعی انتظامیہ نے ریسکیو کیا۔ عدالت نے کہاکہ گندگی بیروکریسی پر ڈال دیتے ہیں اور انہیں کام نہیں کرنے دیتے۔ عدالت نے سوال اٹھایاکہ کیا وجہ ہے تین سال میں سات اے سی مری تبدیل ہوئے، کیا کوئی سیاسی طاقت ور ہے ادھر۔کمشنر راولپنڈی گلزار حسین شاہ نے کہاکہ سانحہ مری میں اے سی مری کی خدمات پر اسے سول ایوارڑ کیلئے نامزد کرنا چاہتا ہوں۔ عدالت نے کہاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچایا جائے، ہوٹلوں کی سہولیات کے مطابق انکی درجہ بندی کی جائے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 26 جنوری تک ملتوی کردی۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button