امید ہے کہ ملا برادر تحریک طالبان کے سربراہ اور دیگر رہنماؤں کو پاکستان کے حوالے کرینگے، رحمان ملک

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سابق وزیر داخلہ اور چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ریفارمز (آئی آر آر) سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ملا برادر مولوی فقیر محمد ، تحریک طالبان کے امیر مفتی نور ولی محسود ، اکرام اللہ اکرام اللہ جو محترمہ بینظیر بھٹو شہید پر قاتلانہ حملے میں بچ گیا تھا کو پاکستان کے حوالے کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ملا برادر کو افغان حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا جب افغان حکومت نے انکو سابق صدر برہان الدین ربانی قتل کیس میں اس کی حوالگی کی درخواست کی تھی کیونکہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کابل کا موجودہ زوال انہیں مارچ 2012 میں اپنے افغانستان کے دورے کی یاد دلاتا ہے ، جب انہوں نے صدر زرداری کا صدر حامد کرزئی کو خیر سگالی کا خصوصی خط پہنچایا اور ان کی مکمل حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ وقت کا پہیہ گھومنے لگا اور بھارت کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا اور کابل کی زمین پر اس نے مضبوط قدم جمائے۔ انہوں نے کہا کہ اسی وقت پاکستان نے ملا برادر کو حراست میں لے لیا تھا اور کابل سے براہ راست ذاتی درخواستیں آ رہی تھیں کہ اسے افغان حکام کے حوالے کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان وزیر داخلہ حنیف اتمر نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران بھی اس کی درخواست کی تھی ۔گر ہم نے ہمیں ان تمام درخواستوں کو مسترد کرنا پڑا کیونکہ ہمیں افغانستان سے کوئی تعاون نہیں مل رہا تھا۔ سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ اس دوران بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کئی گنا بڑھ گئی تھیں اور افغان حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی تھی۔سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ پاکستان کو ٹھوس شواہد کے ساتھ قابل اعتماد انٹیلی جنس رپورٹ ملی تھیں کہ بھارت نہ صرف بلوچ نوجوان عسکریت پسندوں کو تربیت دے رہا ہے بلکہ بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے بھی کر رہا ہے۔ یہ معاملہ افغان حکام کے سامنے اٹھاںے کے لئے وزیر اعظم گیلانی ، میں اور جنرل ظہیر الاسلام نے ایک روزہ کابل کا دورہ کیا جہاں ہم نے صدر کرزئی سے ملاقات کی اور انہیں 5 ہندوستانی دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں کے بارے میں بتایا جنہیں افغان این ڈی ایس سپورٹ کر رہا تھا مگر صدر کرزئی نے اس الزام

کی تردید کی ، لیکن جب میں نے تمام ثبوت پیش کیے تو پھر ان کے لیے اسے مسترد کرنا کافی مشکل ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ صدر کرزئی نے آخر میں کہا کہ یہ ان کے ہاتھ میں نہیں اس لیے ہمیں یا تو امریکیوں سے بات کرنی چاہئے یا ہم ملا برادر کو ان کے حوالے کر دیں گے اور وہ ہماری طرف سے امریکیوں سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر وہ ہمارے ساتھ کوئڈ پرو کو ڈیل کرنا چاہتے تھے کہ ہم اسے ملا غنی برادر لیتے اور پھر وہ امریکیوں کو دہشت گردی کے مراکز کو ختم کرنے کی سفارش کریں گے۔سینیٹر رحمان ملک نے مزید کہا کہ اس دوران افغانستان کی امن کونسل کے

چیئرمین برہان الدین ربانی کو قتل کر دیا گیا اور کابل نے الزام لگایا کہ یہ حملہ ملا برادر نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے این ڈی ایس کی جانب سے شیئر کی گئی انٹیلی جنس کی بنیاد پر ملا بردار سے تفتیش کے لیے ایک قابل ٹیم تعینات کی لیکن ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کابل چاہتا تھا کہ ملا برادر کو مبینہ قتل کیس میں مقدمہ چلانے کے لیے ملک بدر کیا جائے اور افغانستان کے حوالے کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بالآخر پاکستان نے کابل سے 20 تفتیش کاروں کو آنے کی اجازت دی جنہوں نے ملا برادر سے ہمارے اپنے تفتیش کاروں کی موجودگی میں قتل

کے اس واقعے پر پوچھ گچھ کی لیکن وہ بے گناہ ثابت ہوا اس لیے پاکستان نے اسے کابل کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ ہم نے ملا برادر کی بے گناہی کو ظاہر کرنے والی تمام رپورٹوں کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ سراج حقانی اور ملا برادر کا امتزاج مہلک رہا ہے۔سینیٹر رحمان ملک نے مزید کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن لانے کے لیے بہت کام کیا ہے لیکن اس وقت کی افغان حکومت اور بھارتی ایجنسی راء امن عمل کو سبوتاژ کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن بھارتی مفادات کے مطابق نہیں ہے اس لیے وہ اسے برباد کرنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے زلمے خلیل زاد کے ذریعے شروع کیے گئے اہم امن مذاکرات حال ہی میں آخری مرحلے میں داخل ہوئے جب امریکہ نے مذاکرات کی قیادت کے لیے ملا برادر کو شامل کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ بیس سال بعد ، طالبان کابل میں دھوم مچاتے ہوئے واپس آئے ہیں کیونکہ امریکہ نے ویت نام سے انخلا کی طرح منظر سے بھاگ لیا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button