امارات میں مقیم امریکی شہری نے اسلام قبول کرنے کی رقت آمیز کہانی سنادی

دُبئی(نیوز ڈیسک) اسلام دینِ حق ہے، یہ دین سلامتی اور سکون بخشتا ہے، اسلامی تعلیمات پر دل و جان سے عمل کرنے والا اللہ کی پناہ میں آ جاتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ ایک امریکی شہری آرون ڈیوڈ سنائیڈر کے ساتھ ہوا، جو اپنی زندگی سے بالکل مایوس ہو چکا تھا مگر پھر اس پر اسلام کی سچائی ظاہر ہوئی اور اب وہ انتہائی پُرمسرت زندگی بسر کر رہا ہے۔ایمان کی روشنی سے فیض یاب ہونے والا یہ امریکی آج ہارون بن چکا ہے۔ 53 سالہ نومسلم ہارون نے بتایا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ ایک انتہائی مایوس اور ڈپریشن سے بھری زندگی گزارتا تھا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ اس کی بے حد شراب نوشی تھی،

ہزار کوشش کے باوجود وہ یہ بُری عادت نہیں چھوڑ سکا تھا ۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی بے مقصد زندگی کو ختم کرنے کے خود کُشی کا ارادہ بنا لیا ، تاہم عین وقت پر اللہ نے اس کی رہنمائی کی اور وہ اب اسلام قبول کرنے کے بعد رمضان کے روزے بھی رکھ رہا ہے۔ہارون نے اپنے قبولِ اسلام کے واقعے کے بارے میں بتایا ”میں امارات آیا ہوا تھا۔ مجھ پر اپنا آپ ختم کرنے کا دورہ پڑاتو میں 19 ویں منزل پر واقع اپنے فلیٹ کی بالکونی پر چڑھا گیا اورخُدا کو پُکار کر کہا میں اپنی شراب نوشی سے تنگ آ گیا ہوں، اس لیے اپنا آپ تیرے حوالے کرنا چاہتا ہوں۔اورپھر خُدا سے پوچھا کہ وہ مجھے سُن سکتا ہے۔ تاہم کُودنے سے ایک لمحے قبل مجھے آسمان پر ایک روشنی دکھائی دی۔میں نے آسمان پر دائیں بائیں نظر دوڑائی تو مطلع صاف تھا، بادل اور بارش کا کوئی امکان نہ تھا۔ میں حیران ہو گیا اور مجھے یقین آ گیا کہ رب میری مدد کرنا چاہتا ہے۔ اس لمحے مجھے بہت زیادہ سکون مل گیا۔ مجھے لگا کہ میں اپنی شراب نوشی پر قابو پا سکتا ہوں۔ انہی دنوں میں نے زندگی کے لیے درست منزل کی تلاش شروع کر دی۔ پتا نہیں میں جب اذان کی آواز سُنتا تھا تو مجھے اپنی رُوح کے اندر تک سکون اُترتا محسوس ہوتا تھا۔انہی دنوں میں نے موبائل پر قرآن شریف کی تلاوت اور اس کے انگریزی ترجمے والی ایپ انسٹال کی۔ مجھ پر اس تلاوت نے بھی بہت اثر کیا اور میں کسی روحانیت سے بھرتا چلا جا رہا تھا۔ اس تلاوت نے میری بے چینی اور اذیت کو سکون میں بدل دیا تھا اور میں شراب چھوڑنے میں بھی کامیاب ہو گیا تھا۔

کچھ روز بعد میں نے شیخ زاید اسلامک کلچر سنٹر سے فون پر رابطہ کر کے دوسری جانب موجود خاتون سے سوالات پوچھے۔اس خاتون نے میرے سوالات کے جوابات دے کر پوچھا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں تو میں پُکار اُٹھا، ہاں مجھے اسلام قبول کر لینا چاہیے۔ جب اس خاتون نے مجھے کلمہ شہادت پڑھایا تو خوشی کے مارے میں رو پڑا۔ پھر مزید دو بار کلمہ پڑھنے پر بھی میری رُوح خوشی سے نہال ہو گئی۔ اس لمحے میری آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ رہے تھے۔ اس لمحے کے بعد سے میری زندگی سکون، اطمینان اور خوشی سے بھرپور ہو چکی ہے۔میرا امارات آنا میرے لیے رحمت کا سبب بن گیا ہے۔

مسلمان سب لوگوں سے بڑھ کر مہربان اور ملنسار ہیں۔ میں نے یکم رمضان کو امریکا جانا تھا۔ پہلے سوچاکہ22 گھنٹے کا لمبا سفر ہے، کہیں بھوک پیاس سے نڈھال نہ ہو جاؤں۔ پھرخیال آیا کہ رمضان کا پہلا روزہ تو بہت برکتوں والا ہوتا ہے۔ اور یہ میری زندگی کا بھی پہلا روزہ ہو گا۔ مجھے اپنے رب کی رضا حاصل کرنی ہے۔بس یہی سوچ کر میں نے زندگی کا پہلا روزہ رکھ لیا۔ اگرچہ لمبے سفر کے دوران یہ ایک چیلنج تھا، مگر اللہ کی ہمت سے میرا روزہ مکمل ہو گیا۔میں اس وقت زیادہ وقت اسلامی تعلیمات سمجھنے اور نماز سیکھنے میں گزار رہا ہوں۔ روزہ رکھنا میں اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔ میری اب کوشش ہے کہ امریکا میں مقیم اپنی بیوی اور دونوں بچوں کو بھی اسلام کی ہدایت اور عمدہ تعلیمات سے آگاہ کر کے انہیں اس مذہب کے دائرے میں لاؤں۔ رب سے بڑی اُمید ہے کہ وہ بھی ایمان کی روشنی میں نہا جائیں گے۔ مجھے اپنے اگلے دنوں کا نہیں پتا، پر اتنا یقین ضرور ہے کہ میری آخرت سنور گئی ہے۔ اگلا جہان خوشیوں اور مسرتوں سے بھرپور ہوگا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button