دبئی میں مقیم پاکستانی بچے نے انسانیت کی مثال قائم کردی
دُبئی(نیوز ڈیسک) یہ دُنیا بھی انسانیت کا درد رکھنے والوں سے خالی نہیں ہوئی۔ حساس دل والے افراد دوسروں کی پریشانی پر تڑپ اُٹھتے ہیں اور ان کی فوراً مدد کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک باشعور اور حساس طبیعت کا مالک حیدر علی ہے۔ 14 سالہ حیدر علی اپنے والدین کے ساتھ دُبئی میں مقیم ہے جس نے اپنے ہم وطن افراد کو کورونا کی وبا کے دوران شدید معاشی بدحالی کا شکار دیکھا ۔کئی پاکستانی فلائٹ آپریشنز دوبارہ شروع ہونے کے بعد بھی صرف اس لیے وطن واپس نہیں جا سکے کیونکہ ان کے پاس واپسی کی ٹکٹ کے پیسے نہیں ہے۔ ان پریشان افراد کی مدد کے لیے کم سن حیدر علی نے میدان
میں آنے کا فیصلہ کیا۔ حیدر علی نے خلیجی اخبار کو بتایا کہ ایک روز وہ اپنے والد کے ساتھ گاڑی میں دُبئی نیشنل ایئر ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے باہر سے گزرا تو وہاں پاکستانی تارکین کی لمبی لائن لگی ہوئی ہے جو شدید گرمی کے باعث پسینے سے بدحال ہو رہے تھے۔میرے والد نے مجھے بتایا کہ اس وقت ہزاروں پاکستانی ایسے ہیں جو کورونا کی وجہ سے بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس واپسی کے لیے ٹکٹس کے پیسے بھی نہیں ۔ یہ سُن کر میرا دل بھر آیا۔ اسی لمحے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی ہمت کے مطابق جتنا ہو سکا، ان افراد کے لیے چندے اکٹھے کر کے ٹکٹس خریدوں گا، تاکہ جتنے بھی افراد کی وطن واپسی ممکن ہو سکے، میری بدولت ایسا ممکن ہو جائے۔میں نے اپنے والد سے بات کی تو انہوں نے میرے نیکی کے جذبے کو بے حد سراہا۔ بلکہ امدادی فنڈز کے لیے سب سے پہلے انہوں نے ہی مجھے 10 ہزار درہم کی رقم دی ۔ اس کے بعد میرے دوستوں اور دیگر جاننے والوں نے بھی اس نیکی کے کام میں بہت زیادہ مدد کی۔ آخرکار میں صرف دو ماہ کے دوران 75 ہزار درہم اکٹھے کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ رقم میں نے دُبئی میں قائم پاکستانی قونصل خانے کے حوالے کر دی۔کیونکہ دیگر افراد کی جانب سے بھی تارکین کے لیے ٹکٹس خریدنے کے لیے فنڈز اکٹھے کیے جا رہے ہیں، اس امدادی رقم سے پاکستانی قونصل خانے میں رجسٹریشن کروانے والے پاکستانی تارکین کی مفت وطن واپسی کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی قونصل جنرل احمد امجد علی نے حیدر علی کے اس کارنامے کو سراہتے ہوئے انہیں اعزازی شیلڈ سے بھی نوازا ہے۔ حیدر علی کے والد دُبئی کے ایک بینک میں اچھے عہدے پرفائز ہیں۔ حیدر کا کہنا ہے کہ اس کے اکٹھے کیے گئے پیسوں سے 55 سے زائد افراد کی ٹکٹس کا بندوبست ہو گیا ہے۔ وہ مزید پریشان حال پاکستانیوں کے لیے بھی فنڈز اکٹھے کر رہا ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کی واپسی ممکن ہو جائے۔