بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی۔۔۔ ہارون الرشید

کرپٹ نہ سہی مگر کپتان کے ہاتھوں بھی نئی نسل نے و ہی مزا چکھا ہے، جیسا پچھلی دو نسلوں نے قائدِ اعظم ثانی اور فخرِ ایشیا سے۔ انٹرویو الگ کہ اس پر واضح تحفظات ہیں۔ سامنے کاسوال یہ ہے کہ دو برس میں نئی حکومت نے کون سا کارنامہ انجام دیا۔عام آدمی کی راہ سے کتنے کانٹے چنے۔عمران خان اور ان کے وزرا دو برس سے شریف اور زرداری خاندان کا رونا رو رہے ہیں۔ کسی انصاف پسند کو انکار نہیں کہ قرضوں کا بوجھ انہوں نے لادا، بے تحاشاکرپشن کے مرتکب رہے۔ انتہا یہ ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات سے بے نیاز، بعض تو بے وفا بھی۔ سوال یہ ہے کہ گلابی وعدوں سے عوامی مقبولیت اور سرپرستوں کی مدد سے جو اقتدار طلوع ہوا، امانت داری کے کتنے تقاضے اس نے پورے کیے۔ایک سو دس روپے کلو چینی اور پچپن روپے کلو آٹا۔ کسی قدر تصرف کے ساتھ: ہم سے کیا ہو سکا محبت میں خیر تم نے توبے وفائی کی قرض کا بار تب بھی اتنا ہی تھا، جب ایک کروڑ ملازمتیں اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کا اعلان ہوا۔ مختصر کابینہ اور قرض نہ لینے کا۔ جب یہ خوش خبری لہرائی کہ ٹیکس دو گنا ہو جائے گا۔ سمندر پار پاکستانی ڈالروں کے تھیلے لے کر بھاگتے چلے آئیں گے۔ ہر چیز کی تاویل کی جا سکتی ہے۔ دعویٰ یہ تھا کہ انصاف عام ہوگا اور سرِ عام ہو گا۔ واقعہ یہ ہے کہ پولیس وہی ہے، وہی پٹوار، وہی عدلیہ، وہی افسر شاہی اوراتنی ہی رشوت ستانی۔ عام آدمی، صدیوں کا قیدی، آج بھی جاگیرداروں اور افسر شاہوں کے قدموں تلے پامال ہے۔ سرپرستی اور سفارش کے بغیر آج بھی کوئی عقدہ نہیں کھلتا۔ ع بندہ ہے کوچہ گرد ابھی خواجہ بلند بام ابھی سحر زدہ مداحوں کے سوا یہ خوش فہمی کسی کو نہ تھی کہ ایک انقلابِ عظیم رونما ہوگا۔ یہ تو مگر خیال وخواب میں نہ تھا کہ عمران اسمٰعیل اور شاہ فرمان گورنر ہوں گے۔ انتہا یہ ہے کہ عثمان بزدار وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ فیصل واوڈا جیسے وزرا، جو فوجی بوٹ میز پہ سجا سکتے ہیں۔یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ دو ہفتوں میں بے روزگاری تمام ہو جائے گی۔ کسی نے کبھی یہ سوچا تک نہ تھا کہ گندم سمگل ہوگی اور درآمد پر قیمتی زرِ مبادلہ لٹے گا۔ تیاری تھی ہی نہیں،ریاضت کی ہی نہیں۔بھیک مانگنا پڑتی ہے مگر سینکڑوں ارب سرکاری صنعتوں میں برباد۔ نجکاری کا حوصلہ نہیں۔ عجیب حکومت ہے، کارٹلز اور افسر شاہی کے جبر کا رونا روتی ہے۔ فیصلے کرتی اور واپس لے لیتی ہے۔ پھر اظہارِ فخر کہ یو ٹرن تو مدبر کی شناخت ہوتی ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے اور عصری دنیا کا مشاہدہ بھی کہ قوموں کی بہبود کا انحصار سول اداروں کی قوت پہ ہوتاہے۔ پختون خوا کے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور سرکاری اداروں میں ایک ذرا سی تبدیلی آئی تو صوبائی اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد 33سے بڑھ کر 65ہو گئی۔ اس کے باوجود کہ پشاور شہر کھدا پڑا تھا۔ ایک نعمت اگرچہ یہ بھی تھی کہ دوسری طرف حضرت مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی خان اور منتشر نون لیگ تھی۔ ایک جماعت نہیں اب وہ خودشکن متصادم گروہوں کا نام ہے۔پختون اور غیر پختون کی کشمکش سوا۔ پنجاب پولیس کو سیاست دانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ نہایت اہتمام اور چاؤ سے لائے گئے ناصر درانی کیوں رخصت ہو ئے۔ 169برس سے بدنام چلی آتی پنجاب پولیس کی عمارت میں اصلاح کی پہلی اینٹ بھی کیوں نہ لگ سکی۔ اسلام آباد کے مشیرانِ گرامی اور افسرانِ کرام کے کیا کہنے، وزیرِ اعظم جن کے گھیرے میں ہیں۔ سکھّا شاہی نسخہ یہ ہے کہ صوبے میں وزیرِ اعلیٰ کی بجائے ایک کارندہ ہونا چاہئیے۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی ہیں۔ ملتان کی سیاست میں من مانی، لاہور میں رسوخ بلکہ ممکن ہو تو وزارتِ اعلیٰ کا حصول، حتیٰ کہ وزارتِ عظمیٰ کا خواب۔ ملک کے اندر باہر، جس کے لیے طاقتوروں سے سرگوشیاں کیں۔ وزیرِ اعظم ایسے میں کام کیا خاک کریں گے؟ تضادات کا بوجھ اٹھا کر مقابلے کی دوڑ میں شریک ہونا تو دور کی بات ہے، ہم ایک قدم بھی آگے بڑھا نہیں سکتے۔ بے چارگی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ ہر چیز جو تابناک اور بھرپور ہوتی ہے، خام او ربھدی بن جاتی ہے، ٹوٹ کر گر جاتی ہے، پیچھے رہ جاتی ہے، بھلا دی جاتی ہے۔ میرؔصاحب نے کہا تھا میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی اس کے علاوہ کہ ججوں کے انتخاب کا طریق اور نظام ہی قابلِ اعتماد نہیں، تعداد بھی کم۔ منصفوں کی 1049آسامیاں خالی پڑی ہیں۔صرف اڑھائی ارب درکار ہیں مگر نظامِ عدل سے کسی کو کیا دلچسپی۔اصول کا ادراک کسے کہ معاشروں کے زندہ رہنے کا انحصار قصاص پر ہوتاہے۔ ایسے لوگ عدلیہ میں گھس آتے ہیں، مقدمات میں فیصلے صادر کرنے کے بعد جو ملزموں سے ملتے ہیں۔ ملزم بھی کون، ایک سابق وزیرِ اعظم۔دشمن ملک کے ساتھ سازباز کا جس پہ الزام لگایا جاتاہے۔ لاہور سے رخصت ہونے والا سیشن جج بگھی میں سوارایک سیاستدان کی طرح جلوس نکالتاہے۔ برسوں پہلے کراچی میں گیارہ سو میں سے چار سو دہشت گرد ضمانت پہ رہا ہوئے تو جی ایچ کیو میں صفِ ماتم بچھی تھی۔ اب بھی عالم وہی ع طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی دعویٰ یہ تھا کہ انصاف کا علم لہرائے گا۔وہ علم کہاں ہے؟ بارسوخ اب بھی غریبوں کے لہو سے لقمہ تر کرتے ہیں۔ افتادگانِ خاک آج بھی اتنے ہی بے نوا۔ ع خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب ازجفائے دِہ خدایان کشتِ دہقاناں خراب مزدور کے لہو سے آقا ہیرے ڈھالتا ہے۔ دیہات کے خداؤں سے کسان کی فصل برباد۔افسر شاہی پٹھے پر ہاتھ رکھنے نہیں دیتی۔ سدھارنے کی بجائے حکومت سمجھوتہ کر لیتی ہے۔افسر، تاجر اور صنعت کار بلیک میل کرتے ہیں اور نیب سے رہائی پا لیتے ہیں۔ اب وہ صرف سیاسی مخالفین کے لیے وقف ہے۔ ناکردہ کار ایسی کہ ان کا بھی کچھ بگاڑ نہیں سکتی، لشکر لے کر وہ چڑھ دوڑتے ہیں اور یہ منہ بسورتی رہ جاتی ہے۔ پی آئی اے، ریلوے اور سٹیل مل کا خسارہ وہی کا وہی بلکہ کچھ زیادہ۔ شکنجہ میڈیا پہ کسا جا رہا ہے۔ سر جھکاؤ ورنہ دشنام۔ غلط کار اخبار نویس بھی ہوتے ہیں مگر جواب دلیل نہیں گالی سے؟ کرپٹ نہ سہی مگر کپتان کے ہاتھوں بھی نئی نسل نے و ہی مزا چکھا ہے، جیسا پچھلی دو نسلوں نے قائدِ اعظم ثانی اور فخرِ ایشیا سے۔(بشکریہ روزنامہ92)

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button