قدرتی آفات اور خطرات، ہم کیا کر رہے ہیں؟
روئے زمین پر زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی انسان مختلف قسم کی قدرتی آفات اور ان سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں کا نشانہ بنتا آ رہا ہے۔ جیسے جیسے زمین پر انسانی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا ویسے ویسے فطرت اور ماحول توازن میں بگاڑ کے سبب قدرتی آفات بھی بڑھنے لگیں۔ انسان نے آسائش کے حصول کیلئے نت نئے طریقے اپنائے تو فطرت کے حسن نے گہنانا شروع کر دیا۔رہائش کیلئے لکڑی کا حصول، فصلوں کی آبیاری کیلئے دریائوں اور پانی کے قدرتی راستوں کا رخ تبدیل کرنا، صنعتی پیداواری استعداد کار کو بڑھانیکیلئے ایندھن کے بے دریغ استعمال نے نئے بحرانوں کو جنم دیا۔ الغرض حضرت انسان نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے آنے والے وقت کی ہولناکیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ ماحول میں تبدیلی ہوئی اور موسمی تغیرات بھی زوور پکڑنے لگے۔
میں یہاں یہ واضح کر دوں کہ قدرتی آفات، موسمیاتی تغیرات اور ماحولیاتی تبدیلیاں علیحدہ علیحدہ موضوعات ہیںلیکن ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بھی ہیں۔ ہمارے ہاں عمومی رویہ یہ ہے کہ اگر انسانی کارفرمائیوں کے سبب کوئی حادثہ رو نما ہو جائے تو اسے بھی ہم قدرت آفت کا نام دے کر اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں۔ ٹیکنالوجی بالخصوص سوشل میڈیا نے پڑھے لکھے افراد میں اس حساس موضوع سے متعلق آگاہی فراہم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ آج کل کے زیادہ تر شہری لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ درخت کاٹے جائیں تو ماحول تبدیل ہوتا ہیاور ان کا کٹائو مختلف مسائل جس میں سر فہرست سیلابی صورتحال ہے اس کا سبب بھی بنتا ہے۔ تاہم اس بات کا ادراک انہیں بھی مکمل طور پر نہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں، موسمی تغیرات اور قدرتی آفات سے تمام علاقے یکساں طور پر متاثر نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر موسلا دھار بارش سے بالائی علاقے تو خاصی حد تک بچ جاتے ہیں لیکن میدانی علاقوں میں ہولناک تباہی مچتی ہے کیونکہ فطری طور پر بالائی علاقوں کا پانی تیز رفتار سیلابی ریلے کی صورت میں میدانی علاقوں کا رخ کرتا ہے۔ اگر ہمارا شہر یا علاقہ کم متاثرہ جگہوں کی فہرست میں ہے تو ان کے بارے میں سوچنا اور عملی قدم اٹھانا چاہئے جن کا سب کچھ برباد ہو جاتا ہے۔ آفات چاہے قدرتی ہوں یا حضرت انسان نے انہیں دعوت دے کر بلایا ہو ہردو صورت میں تباہ کن ہیں، اگر ہم آج ان سے بچ بھی جائیں تو یہ ہمیں کسی نہ کسی روز آ لیں گی۔
ہمارا یہ وطیرہ رہا ہے کہ ہم ہر سانحے، آفت یا حادثے کے بعد جاگتے ہیں، 2005 کا زلزلہ لے لیں، اس سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس کوئی ادارہ یا مکینزم موجود نہیںتھا۔ابھی زلزلے کی ہولناکیوں سے نہیں سنبھلے تھے کہ 2010 کے سیلاب نے آ لیا۔ ہم نے پھر دکھاوے کی بھاگ دوڑ کی اور پھر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گئے۔ اس ضمن میں قومی و صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹیز کا کردار بھی مایوس کن ہی رہاجنہیں ہمیشہ آفات و سانحات کے بعد ہی متحرک ہونے کا خیال آیا۔ من حیث القوم ہمارا مجموعی رویہ بھی قابل ذکر نہیں رہا البتہ چند غیر سرکاری تنظیمیں اور شخصیات خاصی متحرک دکھائی دیں۔
2022ء میں بھی یہی ہوا کہ ہم نے دہائی قبل کے حالات سے کوئی سبق نہ سیکھا اور نتیجتاََ 3 کروڑ سے زائد افراد سیلاب سے براہ راست متاثر ہوئے۔بارشوں کا 61 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ قیمتی جانیں گئیں، املاک کو شدید نقصان پہنچا، بیماریاں پھیلیں، معیشت کا بٹھا بیٹھ گیا، فصلیں تباہ ہوئیں تو زرعی اجناس کی قلت نے خوراک کے جز وقتی بحران کو جنم دیا، دوائوںکی ڈیمانڈ بڑھی تو قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ ادارے ہمیشہ کی طرح بعد میں حرکت پذیر ہوئے لیکن فوٹو سیشن، خالی خولی اعلانات اور تشہیر تک محدود رہے۔فنڈز آئے تو کرپشن کا بول بالا بھی ہوا۔ ککھ پتی کروڑ پتی ہو گئے۔امدادی سامان مستحقین میں تقسیم ہونے کی بجائے فروخت کیلئے بازاروں میں نظر آیا اور اگلے فنڈز کے انتظار میںواویلا مزید تیز کر دیا گیا۔غرض یہ کہ ہم نے مجموعی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ غیر سرکاری تنظیمیں نے البتہ اپنی بساط کے مطابق امدادی سرگرمیاں سر انجام دیں،زیادہ تر علاقوں میں مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو ریسکیو کیا۔ بہت سے علاقے تو ایسے بھی تھے جہاں تک جانا عام شہریوں یا فلاحی تنظیموں کیلئے ممکن ہی نہیں تھا۔
میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ہم تمام آفات و سانحات سے کلی طور پر نمٹ سکتے ہیں لیکن ان سے نمٹنے کیلئے کسی نہ کسی حد تک تو تیاری کی جا سکتی ہے تاکہ نقصان کم سے کم ہو۔ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کیلئے کیا یہ مشکل ہے کہ وہ ملک کے ہر گلی، کوچے، گائوں، بازار میں موجود شہری تک پیغام نہ پہنچا سکے؟کیا ان شہریوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجوہات، موسمیاتی اتار چڑھائو، اس کے نقصانات اور قدرتی آفات بارے آگاہی فراہم نہیں کی جا سکتی؟ کیا کسی آفت کے آنے سے بیشتر حساس علاقوں کی درجہ بندی نہیں ہو سکتی؟ کیا ان علاقوں میں موجود لوگوں کو ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے تربیت فراہم نہیں کی جا سکتی؟ کیا آفات کی پیشگی اطلاع دینا روس کو توڑنے سے زیادہ مشکل کام ہے؟کیا چھوٹ چھوٹے ڈیمز بنا کر ان سے دوہرا فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا جس میں پانی کو محفوظ بھی کر لیں گے اور سیلاب جیسی آفت کا راستہ بھی روکک لیں گے؟ ہرگز نہیں بس ترجیحات کا فرق ہے۔ اس کیلئے ہمیں ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔
ذرائع ابلاغ کا موثر استعمال یعنی ضروری نہیں کہ اشتہاری صورت میں بلکہ پیمرا اور دیگر ادارے ذرائع ابلاغ کو اس ضمن میں پبلک سروس میسجز نشر کرنے کا پابند بنا سکتے ہیں، دور دراز کے علاقوں میں ریڈیو سے پیغام پہنچایا جا سکتا ہے۔ پولیو طرز کی ٹیمیں تشکیل دی جا سکتی ہیں۔ مقامی لوگوں میں سے چند سمجھدار اور خواندہ اشخاص کو تربیت دے کر انہیں علاقے کے مزید لوگوں کی تربیت پر مامور کیا جا سکتا ہیکہ آپ نے ایسی کسی بھی ہنگامی صورتحال سے کس طرح نمٹنا ہے؟ دوسروں کی مدد کیسے کرنی ہے؟ گھر میں بجلی کی تنصیبات کس طرح اور کہاں نصب ہونی چاہئیں؟ آگ لگ جائے تو کیا کیا جائے؟ ابتدائی طبی امداد کیا ہے اور کیسے دی جا سکتی ہے؟ مدد کے تمام طریقے اوراس کیلئے دستیاب وسائل کو بروئے کار لاناکیسے ممکن ہے؟ ان تمام موضوعات سے متعلق آگاہی کیلئے آ ج کا سب سے بڑا ہتھیار سوشل میڈیا بھرپور طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا کی اثر ورسوخ رکھنے والی شخصیات چاہے وہ کسی بھی شعبے سے ہوں ان سے رضاکارانہ مدد لی جا سکتی ہے۔ میں یہاں ایک مثال دوں گا ملینز میں فین فالوونگ رکھنے والے ٹک ٹاک Influencersمنٹوں میں اپنا پیغام لاکھوں افراد تک پہنچا سکتے ہیں۔ یوٹیوبرز، وی لاگرزز، بلاگرز، ٹک ٹاکرز کو عوامی آگاہی کیلئے پیغام رساں بنایا جائے۔میں نے مختلف ٹریننگ سیشنز میں ایک کامیاب تجربے کا اکثر ذکر کرتا ہوں۔ میرے ایک دوست جو وی لاگر ہیںوہ اس حوالے سے میری تجویز پر اپنے وی لاگز میں مستقل ایک عوامی آگاہی کا پیغام مسلس نشر کرتے ہیں۔ یعنی اگر انہیں لاکھوں افراد دیکھ رہے ہیں تو موثر انداز میں یہ پیغام دیکھنے والوں تک پہنچ رہا ہے اور اگر پہنچ رہا ہے تو ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگ ضرور اسے ذہن نشین بھی کرتے ہوں گے۔اس لئے جو لکھ سکتا ہے وہ لکھ کر بتائے، جو بول سکتا ہے وہ بول کر، جو کرکے دکھا سکتا ہے وہ کرکے دکھائے تو ہم کسی نہ کسی حد تک اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ ہم ان قدرتی آفات کے خطرے اور نقصانات کو خاصی حد تک کم کر لیں گیاور ظاہر ہے کہ نقصان کم ہو تو اس سے نمٹنا بھی آسان ہے۔