نظام بدلے بنا کوئی چارہ نہیں!

دنیا بھر میں دیگر شعبوں کے ساتھ صحت کے شعبے میں بھی ترقی ہورہی ہے، لیکن پاکستان کے ہر شعبے کی طرح صحت کا شعبہ بھی زبوں حالی کاہی شکار چلا آرہاہے ، پا کستان کے شعبہ صحت میںمعاشی و انسانی وسائل کی انتہائی کمی پائی جاتی ہے،ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ ریسورس ضرورت کا صرف دسواں حصہ ہی بڑی مشکل سے پورا کرپارہے ہیں، اس لیے ملک میں فوری طور پر معاشی و نسانی و سائل بڑھانے کی اشد ضرورت ہے ،کوالٹی ہیلتھ کیئر کے لئے معیاری ڈاکٹراور نر سیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، لیکن پا کستان میں منتخب حکو مت سے لے کر نگران حکومت تک کی تر جحات میں صحت و تعلیم جیسے اہم شعبے کہیں دکھائی ہی نہیں دیے رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ پا کستان ایک عرصے سے معاشی بحران کا ہی شکار چلا آرہا ہے ، اس کے باعث دیگر ممالک کی طرح معاشی و انسانی معیاری وسائل کی دستیابی جہاں انتہائی مشکل ہوتی جارہی ہے ،وہیں قدرتی آفت اورکووڈ ،ڈینگی جیسی وبائوں نے بھی مشکلات میں مزید اضافہ کیے رکھاہے ،اس دوران کئی فلاحی ادارے حکومت کے ساتھ مل کر میڈیکل کیمپ ضرور لگاتے رہے ، جو کہ جز وی طور پروقتی اور ناکافی ہی ثابت ہوئے ہیں، اگر دیکھا جائے تو صحت کے انسانی وسائل کے لحاظ سے پاکستان اقوام عالم کی فہرست میں کافی نیچے ہے،یہاںپرچو بیس کروڑ عوام کیلئے صحت کا سلانہ بجٹ صرف چوبیس ارب روپے رکھا جاتا ہے اور اس کا بھی درست استعمال نہیں ہورہا ہے،اس صورتحال میں ہمیں بطور معاشرے کے حکومت کو متوجہ کرنے کے ساتھ خود بھی مختلف اداروں کے ساتھ مل کر اقوام عالم کے شعبہ صحت کو سامنے رکھتے ہوئے فی الفور کام شروع کرنا چاہئے اور اپنے آنے والے دنوں میں بہتری لانے کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے لیکن ہم حکومت کے ساتھ مل کرمختلف شعبوں میں بہتری لانے کے بجائے ایک دوسرے کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرنے میں ہی لگے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ کسی بھی ریاست میں رائے عامہ کے لیے صحت کی سہولیات فراہم کرنا ،حکومت کی ہی اولین ذمہ داری ہوتی ہے،لیکن پا کستان کے بد حال معاشی حالات میں کسی حکومت کی تر جیحات میں ایسا کچھ دکھائی دیتاہے نہ ہی آئندہ کیلئے کوئی منصوبہ سازی ہورہی ہے، اس ملک میں آنے والی ہر حکومت وقت گزارو پروگرام پر عمل ہی پیراں رہی ہے ، اس سال بھی بل خصوص شعبہ صحت میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں لائی جاسکی ہے، گورنمنٹ کے تمام بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کی لمبی لائنیں اور مریضوں کی ہونے والی ہلا کتیں، اس پر مہر ثبت کرتی ہیں کہ سفارشی بھرتی عملہ اپنے ماتحتوں کو ڈھیل دے کر ائر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر بھاری بھرکم تنخواہیں ہی وصول کررہے ہیں،لیکن کام کاج کہیں ہوتا دکھائی نہین دیے رہا ہے، اگر ہسپتالوں میں ڈاکٹر وں سے لے کر پیرا میڈیکل سٹاف تک سارے ہی میرٹ کے بجائے سفارش سے ہی لائے آ جائیں گے تو پھرشعبہ صحت میں کیسے بہتری لائی جاسکے گی اور کیسے عوام کوکوئی رلیف دیا جاسکے گا ۔
پا کستان میں ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اچھے باصلاحیت لوگ نہیں ہیں ، اچھے ڈاکٹر اور اچھے تربیت یافتہ پیرا میڈیکل سٹاف نہیں ہے ، اس ملک میں بڑے ہی قابل باصلاحیت لوگ موجود ہیں ، باصلاحیت ڈاکٹر بن رہے ہیں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو بھی اچھی تربیت دی جارہی ہے ، لیکن ہر جگہ ہی میرٹ کا فقدان ہے ، ہر جگہ ہی اہلیت پر نااہل کو فوقیت دی جارہی ہے ،اس کے باعث باصلاحیت لوگوں کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک جاچکی ہے اور جو کچھ بچئے کچے رہ گئے ہیں،وہ بھی ملک چھوڑنے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں ،اگر ملک کے باصلاحیت لوگ ہی مایوسی کاشکار نظر آنے لگیں گے تو پھر اس ملک کا مستقبل کون سنوارے گا،اس ملک میں معیشت سے لے کر معاشرے تک میں بہتر ی لانے کیلئے میرٹ لاناہو گا ، میرٹ پر آئے لوگوں کو ہی آزمانا ہو گا، اس ملک میں جب تک ہر شعبے میں میرٹ پر باصلاحیت لوگ نہیں آئیں گے ،ملک کی معیشت بہتر ہو گی نہ ہی دستیاب محدود وسائل سے کہیں کوئی بہتری لائی جاسکے گی ،ہمارے پاس معاشی وسائل کم ضرور رہی ہے ،مگر انسانی وسائل کی کوئی کمی نہیںہے ، لیکن ہم محدو ومعاشی وسائل کے غلط استعمال کے ساتھاپنے انسانی وسائل بھی ضائع کررہے ہیں ،اس کا جب تک درست استعمال نہیں کیا جائے گا،نظام صحت میں بہتری نہیں آپائے گی۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ حکومتی وزراسے لے کر ہر شعبے کے اعلی عہدیدار تک سب ہی اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہیاں برتے جارہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا ہے نہ ہی کوئی روک ٹوک کر رہا ہے ، ا س کرپٹ نظام کے گندے حمام میں سب ہی مل کر نہا ئے جارہے ہیں اور سزا عام عوام اکیلئے ہی بھگتے جارہے ہیں ،لیکن اب عوام کی برداشت جواب دینے لگی ہے ، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا ہے ،اگر حکومت نے اپنے وزراء کے ساتھ ہر شعبے کے اعلی عہدیداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے احتساب کا سخت نظام قائم نہ کیا اور جن نعروں، وعدوںکے ساتھ اقتدار میں آتے ہیں ، انہیں پورا نہ کیا تو اس بار عوام خاموش رہنے والے ہیں نہ ہی خاموشی سے کرپٹ نظام مزید برداشت کریں گے ، اگر حکمرانوں نے اب بھی خود کو بدلنے کے ساتھ کرپٹ نظام نہ بدلا تو عوام کے ہاتھ میں حکمرانوں کے گریباں ہوں گے اور انہیں لانے والے بھی انہیںبچانے نہیں پائیںگے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button