مقبوضہ کشمیرمیں مظالم کانیاسلسلہ اورپروپیگنڈہ
ایک طرف اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کاقتل عام کررہاہے تودوسری طرف انڈیانے مقبوضہ کشمیرکے حوالے سے مودی کورٹ کے فیصلے کے بعدکشمیریوںپر ظلم وستم کانیاسلسلہ شروع کردیاہے ۔چنددن پہلے بھارتی فوج نے جموں وکشمیرکے ضلع پونچھ کے علاقے بفلیازمیں آٹھ سے زائد بے گناہ کشمیریوں کوگھروں سے اٹھایااورپھرسوشل میڈیاکے ذریعے ساری دنیانے دیکھا کہ کس طرح بھارتی درندے ان کشمیریوں کے لباس اتارکر ان پر مرچیں چھڑک رہے ہیں اورمنہ سے مغلظات بھی بک رہے ہیں ۔
بعدازاں بھارتی فوج نے ان میں سے تین افرادسفیر حسین،محمد شوکت اور شبیر احمدکو فوجی کیمپ میں مزید تشدد کر کے جان سے مار دیا۔شہیدہونے والے سفیر کے بڑے بھائی احمد نور کا کہنا تھا کہ "میں نے 32 سال تک بھارتی افواج میں خدمات سر انجام دیں، اور میری وفاداری کا صلہ میرے بھائی کی موت کی شکل میں دیا گیا ہے۔” احمد نور کا مزید کہنا تھا کہ اس نے بھارتی فوج میں تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ اپنی خدمات پیش کیں اور مختلف ایوارڈز حاصل کیے جن کی وقعت اب اس کی نظر میں کچھ بھی نہیں۔
فوجی تشددسے زخمی ہونے والے دیگرافراداس وقت زیر علاج ہیں ۔ہسپتال میں زیر علاج زخمیوں میں سے ایک نے بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ اسے اور دیگر گرفتار افراد کو برہنہ کرکے پیٹا گیا اورر زخموں پر مرچ کا پائوڈر چھڑکاگیا اورفوجی اہلکار انہیں اس وقت تک مارتے رہتے جب تک کہ وہ بے ہوش نہیں ہوجاتے۔52سالہ محمد اشرف نے بتایا کہ انہیں اور چار دیگر افراد کو بھارتی فورسز نے گرفتارکیاجس کے بعدفوجی اہلکاروں نے ہمارے کپڑے اتارے اور ہمیں لاٹھیوں اور لوہے کی سلاخوں سے پیٹا اورہمارے زخموں پر مرچ کا پائوڈر چھڑک دیا۔سوشل میڈیا پروائرل ہونے والی ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے اشرف نے بتایاکہ میں وہی شخص ہوں جسے وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں بھارتی فوجی ایک شخص کو لوہے کی سلاخوںاور لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ صدمے کی وجہ سے وہ گزشتہ ایک ہفتے سے سو نہیں پا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا جب آپ کے پورے جسم میں شدید درد ہو اور آنکھیں بند کرتے ہی اذیت کے خیالات آپ کے دل و دماغ کو پریشان کرنے لگیں تو کون سو سکتا ہے؟
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع راجوری کے علاقے ہسبلوٹ تھنہ منڈی کا رہنے والا اشرف 2007سے جموں و کشمیر کے پاور ڈویلپمنٹ میں لائن مین کے طور پر کام کررہا ہے۔ انہیں ماہانہ 9330روپے تنخواہ ملتی ہے۔ اس سے وہ اپنے تین بچوںیعنی ایک 18سالہ بیٹی اور 15 اور 10 سال کے دو بیٹوں کی کفالت کرتاہے۔ ان کی اہلیہ کا انتقال رواں سال 23مارچ کو ہوگیا تھا۔اشرف کے ساتھ راجوری کے ہسپتال میں داخل دیگر چار افرادمیں45سالہ فاروق احمد ،50سالہ فضل حسین،اس کا بھتیجا 25سالہ محمد بیتاب اور ایک 15سالہ کمسن لڑکاشامل ہے۔ بیتاب کی پندرہ دسمبرکوشادی ہوئی تھی اورولیمہ کی یہ تقریب ہی اس کے لیے عذاب بن گئی ۔
اس ظلم وبربریت کے بعد سری نگر میں شدید احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ ضلع پونچھ میں انٹرنیٹ سروس مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے جبکہ محاصروں اور تلاشی کا سلسلہ بھی تیز کر دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ میں 21دسمبر کوایک حملے میں پانچ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارتی فوج پاگل ہوگئی ہے معصوم شہریوں پر انسانیت سوز مظالم کاسلسلہ شروع کردیا ہے۔یوں لگتاہے کہ بھارتی قابض افواج کو کشمیریوں کے قتل عام کا لائسنس جاری کردیاگیاہے ۔
ہوناتویہ چاہیے تھاکہ بھارت کے ان مظالم کے خلاف بھرپورآوازاٹھائی جاتی مگر آزاد کشمیر میں ایک مخصوص طبقہ پاک فوج کی خدمات اور قربانیوں سے قطع نظراپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے پاک فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہم چلانے میں مصروف عمل ہے ، ایک مخصوص سوچ کے حامل شخص نے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے وادی نیلم میں تعینات پاک فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور الزام لگایا کہ پاک فوج کے جوانوں نے اس پر بندوق تانی اور قتل کی دھمکی دی جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ذرائع کے مطابق فضل محمود نامی وکیل کو 20 دسمبر کی صبح جب کیل کی طرف جاتے ہوئے جائنٹ چیک پوسٹ پر معمول کی چیکنگ کے لیے روکاگیا تو موصوف نے رکنے کی بجائے گاڑی بھگا دی جس کو اگلی چیک پوسٹ پر تیجیاں کے مقام پر روکا گیا اور شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد آگے جانے کی اجازت دی گئی۔
اس واقع کو فضل محمود نے باعث توہین سمجھا اور سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف الزامات کے انبار لگا دیے۔ذرائع کے مطابق مذکورہ شخص طویل عرصے سے فوج اور سیکورٹی اداروں کے خلاف جھوٹ بولتا رہا ہے اور ہر بار بے نقاب ہوا ہے۔ عوام علاقہ اور بار کونسل سے گزارش ہے اپنے درمیان اس طرح کی کالی بھیڑوں کو پہنچانیں اور ان کو بے نقاب کریں۔ عوام کو گمراہ کر کے سیکورٹی اداروں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرکے دشمن کے مقاصد کو تقویت دینے والے شخص کو الگ کیا جائے تاکہ ایسا شخص وکالت جیسے مقدس اور ذمہ دار پیشے کو بدنام نہ کر سکے۔
کوئی ایک یا دو دن بمشکل گزرتے ہوں گے جب بلوچستان یا خیبر پختوانخوا ہ سے دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار پاک فوج کے کسی افسر یا جوان کی ملک و قوم کی سلامتی کے لیے قربان ہونے کی اطلاع نہ آتی ہو۔ دشمن عناصر پاک فوج کے حوصلے پست کرنے کے لیے عرصہ دراز سے فوج مخالف پروپیگنڈا چلا رہے ہیں ۔اس کے باوجود پاک فوج کے افسران ہوں یاجوان وہ ملک اور قوم کی سلامتی کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انھیں نہ تو ملک میںسیاستدانوں کی باہمی اقتدار کی جنگ سے کوئی غرض ہے نہ ہی وہ کسی سیاسی لیڈر کی نظروںمیں سرخرو ہونے کے لیے کسی جھوٹے بیانیے کاسہارہ لیناچاہتے ہیں ۔ نہ ہی انھیں ان عناصر کی پروا ہے جو اٹھتے بیٹھتے پاک فوج پر کیچڑ اچھالتے اور ملک کی بقا اور سلامتی پر اپنا آپ قربان کرنے والوں کی تضحیک میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
ہمارے ملک کا ایک مذہب بیزارطبقہ اپنے مادر پدر آزاد خیالات اور نظریات کی وجہ سے تقسیم ہند کے وقت سے پاک فوج کے خلاف چلا آرہا ہے۔ ان کا یہ بغض ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ یہ عناصر جو کبھی لینن ومارکس کے پیروکار بن کر پاک فوج کے خلاف کمر بستہ تھے اور دو قومی نظریہ کی ضد میں گریٹر پختونستان کے حامی بنے ہوئے تھے تو کبھی بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرکے وہاں کمیونسٹ ریاست کے قیام کے خبط میں مبتلا ہو کر پاک فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو تیار تھے ۔ اب وہی عناصرآزادی اورانسانی حقوق کے نام پرآزادکشمیرکامقبوضہ کشمیرسے موازنہ کرکے دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں ۔
اسی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کرائسٹ چرچ راولپنڈی میں تقریب سے خطاب کرئے ہوئے کہا ہے پاکستان کے دشمن مذہبی، نسلی اور سیاسی کمزوریوں کو استعمال کرتے ہوئے دراڑیں ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں، ہمیں ایک پرعزم اور مضبوط قوم کے طور پر ابھرنے کیلئے متحد اور یکجان ہونا پڑے گا۔