فلسطین۔۔۔عالمی ضمیرکاامتحان

ناجائزریاست اسرائیل پون صدی سے نہتے فلسطینیوں کاقتل ِ عام کررہاہے اتنی درندگی،اتنی وحشت اور اتنی سفاکیت کی انسانیت بھی شرماجائے غزہ سے مسلسل دردناک خبریں آرہی ہیں اب تو کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس بھی چلااٹھے ہیں کہ غزہ میں جنگ نہیں دہشتگردی ہورہی ہے ، کیونکہ اسرائیلی افواج نے شہری آبادی ، پناہ گزیبوںکے کیمپوں،ہسپتالوں ،تجارتی مراکزمیں اس قدربمباری کی ہے کہ اتنا بارود دوسری جنگ ِ عظیم میں بھی استعمال نہیں ہوا اب تازہ ترین صیہونی جنگی جہازوںنے غزہ پر سب سے بڑے الشفاء اسپتال پر بمباری کرکے اسے خون سے غسل دیا جہاںپر زیر ِ علاج درجنوں افرادشہیدہوگئے جس کے خلاف باضمیر مظاہرین نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں اسرائیلی وزارت دفاع کے سامنے خیمے نصب کردیئے انہوں نے قیدیوں کی رہائی کیلئے مذاکرات کا مطالبہ کردیاہے جبکہ برطانیہ، جرمنی اور فرانس کا اسرائیل سے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے ،قطر اور مصر مذاکرات کی بحالی میں مصروف ہیں حریت پسند تنظیم حماس کا اسرائیلی جارحیت کے مکمل خاتمے تک بات چیت میں شامل نہ ہونے کا اعلان کررکھاہے، غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے تلکرم میں اسرائیلی ڈرون حملے بھی جاری ہیں یہودی افواج کے حملوںمیں اب تلک ہزاروں پر خوفناک بمباری سے فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوںکی ہے ۔ فرانس نے غزہ جنگ میں فوری اور پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے ۔اسرائیلی جارحیت کے پس منظرمیں یہ قضیہ فلسطین پوری امتِ مسلمہ کا معاملہ ہے ۔اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ حقیقتاً حماس کے مجاہدین اس وقت باطل قوتوں کے خلاف مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت اور امتِ مسلمہ کے بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں جنہوںنے صیہونیوں کے مذموم ایجنڈا کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے مسئلہ فلسطین ا ور مسجدِاقصیٰ کی حرمت کا معاملہ سابقہ اْمتِ مسلمہ اور موجودہ اْمتِ مسلمہ کے درمیان حتمی معرکہ کی اہم کڑی ہے آج پوری دنیا غزہ میں ایک نئی تاریخ رقم ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ صورت ٍ حال یہ ہے کہ غزہ میں ہزاروں بے گھر افراد اسپتال کی عمارت اور گراؤنڈ کو پناہ کیلئے استعمال کر رہے ہیں ،پینے کے پانی اور خوراک کی شدید قلت ہے وہاں عارضی ہسپتال میںسینکڑوں زخمی موجود ہیں، اور ہر منٹ میں نئے مریض آرہے ہیں یہاں طبی سہوتوںکا فقدان ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ شدید زخمی مریضوں کا اسپتال کے فرش پر علاج کیا جارہا ہے جبکہ زخمیو ں کو ٹانکے لگاتے وقت سن کرنے والی اور درد کش ادویات بھی دستیاب نہیں ہیں عارضی کیمپوںپربھی وقتاً فوقتاً بمباری سے درجنوں افراد شہید ہو جاتے ہیں اس ضمن میں اسرائیلی حکومت کا رویہ انتہاپسندانہ ہے ،اسرائیل فلسطینیوں کی نسلی کشی کر رہا ہے اور نہیں چاہتا کہ غزہ میں جنگ ختم ہو، یہودی انتہا پسند حکومت فلسطینیوں کا قتل عام کررہی ہے اب بڑی طاقتوں کی بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کو جنگ سے روکیں گذشتہ دنوں اسرائیلی فوج نے کمال عدوان ہسپتال کے قریب بے گھر فلسطینیوں کے خیموں پر بلڈوزر چڑھا دیئے۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے کے شمالی شہر طولکرم پر اسرائیلی فوج نے دھاوا بول دیا جبکہ شمالی شہر جنین پر بمباری کی اطلاعات ہیں۔ شمس کیمپ پر اسرائیلی فوج کے دھاوے کے دوران متعدد خواتین و بچے شہید ہوگئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فوجی مہم کا دائرہ کم کرے اور حماس کے رہ نمائوں کو زیادہ درست طریقے سے نشانہ بنانے والی کارروائیوں کی طرف بڑھے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ کیتھرین نے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرائیلی حملوں میں عام شہری بڑی تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں۔ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوتے تمام فریقین مل بیٹھ کر مسئلے کو حل کریں۔ لبنان‘ ایران اور مغربی کنارے میں بھی کشیدگی کم ہونی چاہئے ہم اس مسئلے کا پائیدار حل چاہتے ہیں لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس بات پر مصر ہیں کہ آخر تک لڑیں گے، تمام مقاصد حاصل کریں گے ۔غزہ میں نئی جنگ بندی کیلئے قطر اور مصر کی کوششیں جاری ہیں۔ حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل کے حملے رکنے تک یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق بات چیت نہیں کریں گے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے بھی غزہ میں جنگ جاری رکھنے کا بیان دیا ہے۔ عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کو دہشتگردی قرار د یتے ہوئے دنیا سے امن کی اپیل بھی کر دی ہے دنیا دیکھ رہی ہے کہ فلسطینی مسلمانوںپر کس قدرقیامت خیز مظالم کئے جارہے ہیں یہ قتل و غارت درحقیقت انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی ضمیرکاامتحان ہے امریکہ نے اس ضمن میں اپنی ذمے داریاں آج تلک پوری نہیںکیں جس سے مسئلہ مزید الجھ گیاہے ہ و یہی صورت تنازعہ کشمیر کی ہے ورنہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر کبھی کا حل ہوچکا ہوتا اس سلسلہ میں بھی یہ خوفناک سچائی ہے کہ امریکہ کی اسرائیل کی بے جا حمایت اس تنازعہ میں اصل رکاوٹ ہے کیونکہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دینے کے باوجود حماس نے پانچ چھ سال قبل غالباً2017ء اسرائیل اور فلسطین پر مشتمل میں دو خود مختار ریاستوں کے قیام کو ایک عملی حل کی تجویز پیش کی تھی جسے مان بھی لیا گیا لیکن اس پر عملی طور پر کوئی پیش رقت نہیں ہوئی اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کا مطمع ٔ نظر مسئلہ حل کرنے کی بجائے فلسطینیوںکی نسل کشی ہے جبکہ حقیقتاً امریکہ کے بغیر اقوام متحدہ کسی نتیجہ خیز پیش رفت کا محال نہیں سکتا عالمی امن کے سنگین خطرے کے باوجود امریکہ کا رویہ اور اقوام متحدہ کی کارکردگی مسلم ممالک کیلئے نہایت مایوس کن ہے کیونکہ جب بھی کوئی حل نتیجہ خیز ہوسکتا ہے تو امریکہ سلامتی کونسل میں ویٹو کرکے بھاری اکثریت کی حامل قراردادوں کو بھی بے اثر اوربے وقعت بنادیتاہے جس سے یہ بات اخذکی جاسکتی ہے کہ اقوام متحدہ عملاً ایک نمائشی ادارہ بن کررہ گیا ہے جس کی وجہ سے عالمی امن کو لاحق خطرات دور نہیں ہوسکتے دنیاکے منصفوںکی سمجھ میں یہ بات جتنی جلدی آجائے ان کے حق میں بہترہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button