سیٹ ہوئے اپ سیٹ

حیرت یہ ہے کبھی کبھی ذہن پر اداسی سوارہوجائے تو کمال کی باتیں ذہن میں آنے لگتی ہیں حالانکہ اداسی یاسیت ہے ،بے سکونی کا نام ہے،طمانیت سے دوری ،بے چینی، بے قراری ہے ہمیں تو یہی احساس ہوتاہے دوسروںکی بات شاید الگ ہو ہماری تو یہی فیلنگ ہیں اداسی کے ماحول میں بھی ایک خیال باربار در آتاہے کہ آج پاکستان کی جو حالت اور عوام کے جو حالات ہیں ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنوں کی غلامی میں آ گئے ہیں۔ کرنے کو تو بڑی لچھے دار باتیں اور خوبصورت و دلفریب قصے کہانیاں ہیں کبھی تنہائی میں اپنے آپ سے سوال کریں کیاآپ آزاد شہری ہیں؟ کیا موجودہ پاکستان جناح ؒکا پاکستان ہے یا ایسے ہی ملک کا خواب علامہ اقبال ؒنے دیکھا تھا یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا ہمارا ہر حکمران ایک ہی راپ الاپتاہے ہم ایک آزاد مملکت کے شہری ہیں لیکن ہم کسی طوربھی آزادنہیں ہیں کئی دہائیوں سے ہم کروڑوںپاکستانی غلاموںکی غلامی کرتے چلے جارہے ہیں اس سے چھٹکارا ممکن نہیں لگتا لیکن پوری قوم عزم ِ صمیم کرلے تو حالات بدل جائیں گے ؟ یہ ایک ایسا سلگتا ہوا سوال ہے جس کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں یہ بھی تاریخی حقائق ہیں کو پاکستان میں آج تک ایک بھی الیکشن غیرجانبدار،صاف اور شفاف نہیں ہواپھر حالات کیسے بدلیں گے کہ عوام ووٹ سرمد کو ڈالتے ہیں جیت سکندرجاتاہے اور لوگ سمجھتے ہیں جیتنے والا بڑا مقدرکا سکندر ہے ہمارے سامنے چائنہ ،بنگلہ دیش اور بھارت کی مثالیں اور حیرت انگیز اقتصادی ترقی ہے اس کے برعکس ہماری معیشت، سیاست،جمہوریت ،ادارے اور ہر شعبہ تنزلی کی طرف تیزی سے گامزن ہے اور افسوس اصلاح کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا پھر دل کو کیسے یقین آجائے کہ وہ وقت دور نہیں جب یوم ِ حساب قہربن کر ٹوٹ پڑے گا تو یقینا ان لوگوں کو تمام چیزوں کا حساب دینا ہوگا ہماری محرومیوں کا حساب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قوم اجتماعی طورپردوٹوک فیصلہ نہ کرلے کہ اب پاکستان کاعام آدمی ذلت کی زندگی نہیں جی سکتا۔ اشرافیہ کی ظلم، زیادتیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا قوم نے فیصلہ کرلیا تو تبدیلی چند مہینوں اور ہفتوں میں آجائے گی یہ حقیقی تبدیلی ثابت ہوگی کیونکہ کروڑوں پاکستانی جرأت سے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں اس تبدیلی کے لئے اداروں کو بھی بے مثال جرات وبہادری اور استقلال کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے عوام نے تو آج تلک مشکلات کے سامنے سرنہیں جھکایا پاکستان کے ساتھ وفاداری و نظریاتی وابستگی کی شاندار مثالیں قائم کیں، مشکلات کو برداشت کیا لیکن راہبران ِ قوم کو بھی اب قربانیاں دیناہوں گے اسی طرح ہمیں مصیبتوں سے نجات مل جائے گی۔ کچھ واقفان ِ حال کا اس تناظرپر یہ تبصرہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں اور اشرافیہ نے ہمیشہ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ این آر او مانگاہے غیر ملکی قرضے کہاں جاتے ہیں پوری قوم کو نہیں معلوم ۔۔یہ قرضے لینا چندلوگوںکاصوابدیدی اختیارہے لیکن قوم کے بچے بچے غیرملکی مالیاتی اداروں کے مقروض ہوگئے مزے کی بات یہ ہے کہ جس سیاستدان کے بیوروکریسی کے ساتھ معاملات سیٹ ہوجاتے ہیں ا س کا بیانیہ ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتاہے ایک دو نہیں جس سیاستدان کا بھی بغور جائزہ لیکن وہی اندرسے لال نکلے گا اگرمحسوس کیا جائے تو میاںنوازشریف کی آواز کے ساتھ آواز ملاکرنعرے لگانے والوںکی حالت دیدنی ہوجائے گی یا آصف زرداری کے حواری نظریں چرانے لگ جا تے ہیں یہی حال عمران خان کے کھلاڑیوں کا ہے ان دنوںعمران خان کی بیوروکریسی سے ٹھن گئی ہے اس لئے عمران خان کو زیر ِ عتاب ہے ماضی میں میاںنوازشریف کے گردگھیرا تنگ تھا سیاستدانوںکیجب ان کی بیوروکریسی سے بگڑتی ہے وہ ایک دوسرے کو عبرت کا نشان بنانے پر تل جاتے ہیں لیکن پلڑا ہمیشہ بیوروکریسی کا بھاری رہتاہے نقصان سیاستدان ہی اٹھاتے ہیں یہی حالات مذہبی جماعتوں کا ہے جن کی منزل ہمیشہ اسلام کی بجائے اسلام آباد رہتی ہے یوں تو ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں یہ الگ بات کہ فائدہ آصف زرداری نے دھوم دھام سے اٹھایا یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ہر حکمران کی دلہن بنی رہی جس کی وجہ سے مسائل در مسائل جان ہی نہیں چھوڑ تے۔ہماری پون صدی کی سیاسی تاریخ اس بات پر محیط ہے کہ جس سیاستدان پا پارٹی کو ڈیل یا ڈھیل نہ ملنے کا یقین ہوجائے تو اس کے بعد طوطا چشمی کی انتہایہ ہے کہ ان سیاستدانوںکا لب ولہجہ ہی بدل جاتاہے یہ ساری باتوں، دعوئوں اوروعدوں کی طرف حکمران اس وقت مطلق توجہ نہیں دیتے جب وہ اقتدار کے مزے لے رہے ہوتے ہیں اس وقت تو ہرطرف ایسے ہرا ہرا نظر آتاہے جیسے ان کی آنکھوںمیں سرسوں پھولی ہو اور مزے کی بات یہ ہے کہ جونہی وہ جوبھی اقتدارسے محروم ہوجاتے ہیں اسے ووٹ کی عزت بھی یاد آجاتی ہے۔ انہیں یہ بھی خیال ستانے لگتاہے کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں یالوڈشیڈنگ نے معیشت کی مت مارکردکھ دی ہے،ٹیکسزنے لوگوںکا براحال کررکھاہے، مسائل سے نجات دلائے بغیرملکی ترقی ممکن ہی نہیں لیکن یہ مسائل اسی وقت حل ہوسکتے ہیں جب وہ اقتدار میں ہوں پھر انہیںاپنے بیانئے کا شدت سے احساس ہوتاہے کہ یہی ایک تیزبہدف نسخہ ہے جو ملک میں راتوںرات دودھ اور شہر کی نہریں قائم کرسکتاہے سیاستدان اتنی بے شرمی ،ڈھٹائی اور چالاکی سے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیںکہ سادہ لوح ان پر یقین کرکے پھر انہی کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں تاریخ سب کے سامنے ہے اب تویہ بات بانگ ِ دہل کہی جارہی ہے کہ پاکستان میں ہر سیاستدان فوج کی آشیربادسے حکمران بنا ہے یہ وہ سچ ہے جسے کوئی جھٹلانابھی چاہے تو نہیں جھٹلاسکتا پھراپنے آپ کو حاجی لق لق ظاہرکرنا کس بات پر دلالت کرتاہے جس کے اپ سیٹ معاملات سیٹ ہوجائیں اس کا بیانیہ ہی نہیں چال ڈھال ہی بدل جاتی ہے پھر وہ جنہیں گالیاں نکالتاہے اسی کی پاک دامنی کے قصے سنارہاہوتاہے قوم کے ساتھ یہ ڈرامہ اور سنگین مذاق بندہونا چاہیے خفیہ ملاقاتیں کرنے والوںکے منہ سے جمہوریت ،جمہوریت کی گردان اچھی لگتی قول و فعل کا تضاد ختم کئے بغیر جمہوری رویہ اور جمہوری نظام کبھی نہیں پنپ سکتااور سچی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت کے ساتھ یہ سنگین مذاق اس وقت تک بندنہیں ہوجاتا جب تلک ان جماعتوں کا اپنا سیٹ اپ جمہوری نہیں ہوتا کیونکہ جمہوریت موروثی سیات کا نام نہیں لیکن جو اقتدارکی مقتدرہ قوتوںکے ساتھ سیٹ ہو جائیں وہ دوسروںکو اپ سیٹ کرنے کے لئے نعرے مارتے پھرتے ہیں دیکھ لیں آج تک یہی کچھ ہورہاہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button