قائد اعظم ؒ کے موقف سے روگردانی

بابائے قوم قائدِ اعظم ؒ محمدعلی جناح بلاشبہ پاکستان کی واحد غیر متنازعہ شخصیت ہیں ماضی میں ان کے نظریاتی مخالفین کی تنقید پرعوام نے ہمیشہ شدید ردِ عمل دیاہے جبکہ محب ِ وطنوںنے ایسی ہر ہر جسارت کا منہ توڑ جواب دینا اپنا فرض جاناہے لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی حکو متی عہدیدارنے بابائے قوم کے فرمودات سے روگردانی کرنے کی جرات کی ہو ایسا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ مملکت ِ خداداد پر ایسے لوگ قابض ہوجائیں گے جو قائد ِ اعظم ؒ کے نظریات پربھی اب سوال اٹھاناشرو ع کردیں یہ تو قیامت کی نشانیاں ہیں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ’’ارشاد‘‘ فرمایاہے فلسطین پر قائداعظم کی رائے سے اختلاف کفر نہیں فلسطین کے دو ریاستی حل پر قائد اعظم کے موقف سے روگردانی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ بچار کرتے ہوئے قائد اعظم کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے یہ میں نہیں پوری دنیا کہہ رہی ہے، دو ریاستی حل کی بات ہم سے منسلک کردی گئی ہے، جیسے ہم نے اس کی تجویز دے دی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ جس طرح فلسطین میں بچے اور خواتین شہید کیے جارہے ہیں، بتائیں اس کا حل کیا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ کسی صورت میں اگر کوئی تجویز موجود ہے تو سامنے لائیں، فلسطینیوں سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ میں فلسطینی ہوں؟ آپ فلسطینی ہیں؟ یا کانفرنس کروانے والے فلسطینی ہیں؟۔ فلسطینیوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے یہودیوں کے ساتھ، اسرائیلیوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے؟ کن اصولوں پر زندگی گزارنی ہے؟۔ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں، ہم ہمسائے ہیں، ہم ان کا حصہ نہیں ہیں۔ انوار کا بچہ نہیں مارا جا رہا، بادامی کا بچہ نہیں مارا جا رہا، جن لوگوں کے بچے شہید ہو رہے ہیں، پہلا حق ان کا ہے، ان سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟۔ حماس کے فلسطینیوں کے نمائندہ ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ بھی فلسطینی کریں گے، میں یا آپ نہیں کریں گے، ہماری طرف اس چیز کو دھکیلنا کہ ہم یہ تجویز دے رہے ہیں، یہ تاثر درست نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ اس کا حوالہ دیتے ہیں، سیاست کوئی کام کرنے کا نام نہیں بلکہ سیاست کچھ حاصل کرنے کا نام ہے، قائداعظم میں اور جو ادیان کے نبی اور رسول گزرے ہیں ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان پر جو الہام آیا ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، لیکن اس سے ہٹ کر جتنے بھی سیاسی رہنما یا سماجی دانشور آئے ہیں، حالات اور واقعات کی روشنی میں، آنے والے وقت میں جو دوسرے لوگ ہوتے ہں، وہ اس پر سوچ بچار کرتے ہیں اور اگر کہیں پر کچھ تعمیری موقف یا کچھ تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ لائی جاسکتی ہے اور آسکتی ہے۔ قائداعظم کی پوزیشن کے تبدیل ہونے پر پابندی نہیں ہے۔ اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ بچار کرتے ہیں اور قائداعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے، اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔ واہ جی واہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑنے کیا خوب کہایقینا یہ ان کے ذاتی خیالات ہوسکتے ہیں اگر کسی وجہ سے انہیں اسرائیل سے ہمدردی ہوگئی ہے یا فلسطینیوںکی حالت ِ زار دے کر ایسا سوجھاہے لیکن جناب آآ کے گوش گذاریہ کرنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ قائداعظمؒ کی رائے سے اختلاف کفر نہیں لیکن جناب اگر ہم آپ کے بیان کو اس تناظرمیںدیکھیں کہ ایک عرصہ سے پاکستان پر دبائو ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرلیا جائے وقتاً فوقتاً کچھ پاکستانی اسرائیل کے خفیہ دورے کرنے کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ دانشوروںکا یہ بھی کہناہے کہ جب کئی عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیاہے تو ہمیں بھی کرلیانا چاہیے کہ ہمارا ان سے کون سا براہ راست جھگڑا ہے یہ ساری باتیں اور منطقیں اپنی جگو اہمیت کی حامل ہیں لیکن جناب کچھ اصولی فیصلے اور موقف بھی ہوتاہے اسرائیل نصف صدی سے فلسطینی مسلمانوںپرظلم کررہاہے بربریت کی انتہا اور قتل و غارت نے انسانیت کوبھی شرمندہ کرکے رکھ دیاہے غاصب یہودیوں کے ظلم و بربریت کی شدید مذمت کی جاتی ہے فلسطینی مسلمانوںپر قیامت خیز مظالم انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی ضمیرکاامتحان ہے۔ جناب ِ کاکڑ صاحب عالمی میڈیا جو رپورٹنگ کررہاہے یہ بڑی ہولناک ہے یہ قتل و غارت معصوم ،نہتے فلسطینیوں کے لئے ایک بے رحم قوم کا تحفہ ہے ۔۔ موت کا تحفہ ۔موت کے سوداگروں کا انتقام ہے غزہ کے معصوم شہیدوں زندگی سے محروم اپنے ہی لہو میں ڈوبے فلسطینی نوجوانوںکی بے گورو کفن آڑھی ترچھی پڑتی لاشیں،جوان لڑکیوں،بوڑھے مردوں اور عورتوں کے کٹے پھٹے لوتھڑے بنے وجود جنہیں سفاک یہودیوں نے بمباری اورحملے کرکے ان کے اپنے گھروں،بازاروں اور گلی کوچوںمیں موت کی نیند سلادیا۔ اپنے پیاروںکی لاشوںپر نوحہ کناں مائوں بہنوں بیٹیوںکی بین کرتی تصویریں۔چھوٹے چھوٹے بچے جن کے ابھی کھیلنے کودنے کے دن تھے لیکن یہودی اجل بن گئے، درندگی کی انتہا غزہ میں ہر طرف تباہی، ہر سمت بر بادی۔ موت کا بھیانک رقص ۔۔ کیا آپ نے نہیں دیکھاہر گھرسے جنازے اٹھ رہے ہیں ہر مکان سے رونے کی آوازیں، ڈرے ڈرے سہمے سہمے بچے ،مائوں بہنوںکی سسکیاں۔۔ ساحل پر کھیلتے بچوںپر بھی فائرنگ متعددشہید۔ یہودیوں کے آگے درندگی اورسفاکی بھی شرماگئی پھربھی آپ کا خیالات ہیں کہ فلسطین پر قائداعظم کی رائے سے اختلاف کفر نہیں۔۔ معاف کیجئے پروٹوکول کے بغیر سفر کرنا بھی کفر نہیں۔۔ واش روم کے لوٹے سے پانی پینا بھی کفر نہیں۔۔۔ لیکن آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر بابائے قوم کے نظریات سے روگردانی کیونکر؟ ایسا کیا گیا تو قوم آپ کو معاف نہیں کرے گی۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button