اس بار فیصلہ عوام کریں گے !

ملک میں عام انتخابات آٹھ فروری کو ہونے ہیں، لیکن ابھی تک انتخابی نظام الاوقات کے اعلان کا انتظار ہے،،نگراں وفاقی اور صوبائی کابینہ کے ارکان اس طرح کام کررہے ہیں کہ جیسے انہیں طویل عرصے رہنا ہے ،چیف جسٹس کی دھمکی کے باوجود انتخابات کے بارے میں ابہام موجود ہے، افواہیں بھی گردش کررہی ہیں، لیکن سیاسی استحکام کے لیے انتخابات کا بروقت ہونا ہی بہتر ہے،اگر آزادانہ انتخابات برقت نہ ہو سکے تو پھر جو لوگ بھی آئیں گے، وہ لانے والوں کا حکم بجا لائیں گے، عوام سے انہیں کوئی غرض نہیں ہو گی۔
اگر دیکھا جائے توسپریم کورٹ پہلے ہی آٹھ فروری کو پولنگ کے لئے ہدایات دے چکی ہے کہ اس روز ہی انتخابات ہوں گے، لیکن سیاسی حالات ہیں کہ شبہ پیدا کرتے رہتے ہیں،بلکہ بات شک و شبہات سے بھی آگے جاتی نظر آرہی ہے ، ایک طرف الیکشن شیڈول ابھی تک جاری نہیںکیا جارہا ہے تو دوسری جانب کچھ سیاسی رہنما الیکشن التوا یلئے مہم چلاتے نظر آتے ہیں ،اس میں جے یو آئی کے سر برہ مولا نا فضل الرحمن پیش پیش ہیں ، آصف علی زرداری کا بھی کہنا ہے کہ انتخابات کچھ دن کیلئے آگے چلے جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے ، اگر سیاسی قائدین ہی آئین کی پابند ی کے بجائے ایسے بیانات دیتے رہیں گے تو پھر کسی اور کو کیسے مود الزام ٹھرایا جاسکتا ہے ۔
اہل سیاست کے قول فعل کا تزاد عوام کے سامنے آرہا ہے ،ایک طرف بروقت انتخابات کے انعقاد کی دہائی دیتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب انتخابات ملتوی کرنے کی سازش کے الزامات بھی لگائے جارہے ہیں ،انتخابات کے التوا کے سارے خدشات رد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے واضح کردیا ہے کہ انتخابات ملتوی نہیں ہورہے ہیں ، آٹھ فروری کو ہی الیکشن کروانے کے تمام انتظامات مکمل ہیں ، اس کے تحت ہی ریڑننگ آفیسرز کو ٹریننگ دی جارہی تھی ،مگر پی ٹی آئی کی طرف سے آروز اور ڈی آروز کی تقرری کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں آراوز ٹریننگ روک دی گئی ہے ، الیکشن کمیشن ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف سپر یم کورٹ میں درخوست دائر کررہا ہے ، لیکن یہ ساری صورتحال آٹھ فروری کے انتخابات کے انعقاد کو خطرے میں ہی ڈالتی نظر آرہی ہے ۔
پا کستانی عوام بروقت انتخابات چاہتے ہیں اور اس وقت کے حالات کا بھی تقاضا ہے کہ انتخابات کا بر وقت ہی انعقاد کروایا جائے ، عام انتخابات کے التوا سے گریز کرنا چاہئے اور الیکشن طے شدہ تاریخ پر ہی کروانے کی کوشش کر نی چاہئے ، لیکن یہ تبھی ممکن ہو گا کہ جب سارہی میدان میں ہوں گے اور کسی کو دیوار سے نہیں لگایا جائے گا ، اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کا موقف واضح ہے کہ نوںمئی کے واقعات میں ملوث حضرات کے سوا باقی لوگوں کو انتخابی مہم کی اجازت ہونا چاہئے، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بھی اب ایسا ہی موقف سامنے آرہاہے کہ سب کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہونا چاہئے، تاہم نوںمئی کے واقعات میں ملوث افراد کو اپنے کئے کی سزا ضرور ملنا چاہئے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ ساری ہی جماعتوں کا ہے، اگر ملک کو سیاسی عدم استحکام سے باہر نکالنا ہے تو تمام اداروں کو ایک بار عوام کو بھی موقع دینا چاہئے کہ وہ اپنی پسندیدہ جماعت کو ووٹ دے، اس بار اپنے لاڈلے کے بجائے عوام کے لاڈلے کو ہی آگے آنے دیا جائے، اس چوبیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں من پسند جماعتوں کو نوازنے کا سلسلہ ا ب رُک جانا چاہیے کیونکہ کروڑوں ووٹرز غدار ہو سکتے ہیں نہ ہی انہیں دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا ہے، عوام کی بڑی تعداد کابرین واش کیا جا سکتا ہے نہ ہی ان کے سر پر بندوق رکھ کر جبراً ووٹ لیا جا سکتا ہے۔
اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے مقتدرحلقوں کوعوام کی خواہش کا احترام کر نا ہو گا اور بر وقت شفاف انتخابات کے انعقاکو نہ صرف یقینی بنانا ہو گا ، بلکہ پورا زور بھی لگانا ہو گا کہ اس بار آر ٹی ایس سسٹم بیٹھے نہ ڈبے بھرے جاسکیںنہ ہی جعلی ٹھپے لگیں، اب تک بہت سارے تجربات ہو چکے ہیں، ایک تجربہ ایسا بھی کر لیا جائے کہ سب کو ہی انتخابات میں شرکت کے یکساں مواقع ملیں اور عوام کو فیصلہ کرنے کا نہ صرف مکمل اختیار دیاجائے ،بلکہ عوام کے فیصلے کو مانا بھی جائے،اگر اس بار بھی عو ام کی بات نہ سنی گئی تو پھرایک بڑے پیمانے پر آنے والے انتشار کوکوئی روک نہیں پائے گا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button