بھٹوکیس حقائق کے تناظرمیں

نصف صدی پیشتر پاکستان کے ایک منتخب وزیر ِ اعظم کے خلاف 9اپوزیشن جماعتوںکے اتحاد نے احتجاجی تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اس وقت کے آرمی چیف ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیاپھر کچھ عرصہ بعد انہیں نواب محمداحمدخان قتل کیس میں سزائے موت سنادی گئی پاکستان کی سیاست بڑی عجیب ہے آج کٹر نظریاتی مخالفین بھی کہنے پر مجبورہیں کہ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی کی سزا ’’جوڈیشنل مرڈر‘ تھا یہ بھی کہاجارہاہے کہ اس کا پس منظر امریکہ کی ناراضگی ہے دنیا بھرمیں امریکہ جس کے خلاف ہوگیا اسے کہیں جائے پناہ نہیں ملتی آخرکار اسے منظرسے ہٹادیا جاتاہے ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ایسے ہی حالات آج عمران خان کو فیس کرنا پڑرہے ہیں بہرحال بلاول بھٹو زرداری کی درخواست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت براہِ راست نشر کی جائے گی ۔بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ آخر یہ ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے؟یہ کیس کیوں اور کس آرٹیکل کے تحت دائر کیا گیا اور اس کیس میں پوچھے گئے 5 اہم سوالات کیا ہیں؟ یہ تمام تفصیلات درج ذیل ہے۔ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس یا ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے، یہ جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ قومی آئین کا آرٹیکل 186کیا ہے قانونی ماہرین کا کہناہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق صدرِ مملکت کسی بھی وقت اگر یہ سمجھیں کہ کسی عوامی اہمیت کے حامل سوال پر سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو وہ اس سوال کو رائے لینے کیلئے عدالت عظمیٰ کو بھجوا سکتے ہیں عدالت ِ عظمیٰ اس سوال پر غور کرنے کے بعد اپنی رائے صدرِ مملکت کو بھجوا دے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس12 برس قبل 2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 186 کے تحت بھٹو کی عدالتی حکم سے پھانسی کے فیصلے پر ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔ اس کیس کی پہلی سماعت 2 جنوری 2012ء کو جبکہ آخری 12 نومبر 2012ء کو ہوئی تھی پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔ آخری سماعت کے بعد8 چیف جسٹس اپنی ملازمت پوری کر چکے مگر کسی نے بھی اس صدارتی ریفرنس کو سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا۔ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے بیان کو بنیاد بنایا گیا جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی طرف سے دباؤ تھا یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں ہونے کی بجائے لاہور ہائی کورٹ میں کرنا غیر آئینی تھا۔ 12 سال بعد زیر ِ سماعت صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے 5 سوال بڑے اہم ہیں یہ سوال سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے پوچھے گئے سوالات یہ ہیں۔ 1۔ ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟ 2- سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہو گا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ بھٹو ریفرنس پر سماعت جاری، کارروائی براہِ راست نشر، زرداری اور بلاول موجود 3- سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟ 4- سزائے موت قر آنی احکامات کے مطابق درست ہے؟ 5- فراہم کردہ ثبوت اور شہادتیں سزا سنانے کیلئے کافی تھیں؟ اس صدارتی ریفرنس کے سوالوں کے جوابات کی تلاش کیلئے قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کا 9 رکنی لارجر بینچ ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کی سماعت کر رہا ہے جس کی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یو ٹیوب چینل پر براہِ راست نشر کی جا ئے گی یقینا بھٹو ریفرنس ہماری عدلیہ کے لئے امتحان ہے کیونکہ حالات و واقعات سے ظاہرہوتاہے ذوالفقار علی بھٹو بے قصور تھے ذوالفقار بھٹو کو انصاف ملنا چاہیے جس کا بڑا مقصد تاریخ کو درست کرنا ہے ۔سپریم کورٹ آف پاکستان چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان پر دباؤ تھا۔ دوسرے انٹرویو میں نسیم شاہ نے کہا مارشل لا والوں کی بات ماننی پڑتی ہے۔ 2018 میں بھی ریفرنس پر سماعت کے لیے درخواست دائر کی۔ احمد رضا قصوری نے روسٹرم پر آکر نسیم حسن شاہ کے نوائے وقت میں انٹرویو کا حوالہ دے دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا آپ جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے؟ وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ میں انٹرویوز کا ٹرانسکرپٹ اور ویڈیوز پیش کروں گا۔ اس موقع پر وکیل مخدوم علی خان اور علی احمد کرد نے عدالتی معاونت کی ہامی بھر لی جبکہ چوہدری اعتزاز احسن نے عدالتی معاون بننے سے معذرت کرلی ۔اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ذولفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دئیے انہوں نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظرثانی بھی خارج ہو چکی، عدالت ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتی ہے؟۔ کس قانون کے تحت عدالت ایک ختم ہوئے معاملے کو دوبارہ کھولے؟۔ آئین میں دوسری نظر ثانی کا تصور نہیں ہے، عدالت نے فیصلہ کیا کرنا ہے یہ تو بتائیں؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا کل کوئی فریق آ کر پرانا مقدمہ نکلوا سکتا ہے؟۔یہ بہت اہم سوال ہے۔کیا ہم آرٹیکل 186 کے تحت کسی عدالتی فیصلے کو دیکھ سکتے ہیں؟۔سوال یہ ہے کہ قانونی سوال کیا ہے؟۔ کیا کل صدر مملکت یہ ریفرنس بھیج سکتے ہیں کہ تمام پرانے فیصلوں کو دوبارہ لکھا جائے؟۔ پورا ریفرنس تو ٹی وی انٹرویوز کے گرد گھومتا ہے اس کے بعد چیف جسٹس نے سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس پر دوبارہ سماعت جنوری میں کی جائے گی۔ حکم نامے کے مطابق ذوالفقار بھٹو کا کوئی بھی وارث چاہے تو عدالتی کارروائی میں شامل ہو سکتا ہے۔ عدالتی کارروائی کو لائیو دکھایا جا رہا ہے، اس کا کریڈٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر کو جاتا ہے۔ فاروق ایچ نائیک کی لائیو اسٹریمنگ کی درخواست نمٹائی جاتی ہے۔ ۔بہرحال بھٹو کیس ایک تہلکہ خیز مقدمہ ثابت ہوگا جس کے ملکی سیاست پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر عدالت ِ عظمیٰ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی کی سزا ’’جوڈیشنل مرڈر‘ قراردیدیتی ہے تو پھراس کے ذمہ داروںکے خلاف کیا کوئی ایکشن لیا جائے گا؟یا نہیں تاریخ کو اس سوال کا جواب ملے گا یاپھر یہ کیس روائتی اندازمیں حالات کی بھول بھلیوںمیں گم ہوجائے گا بہرحال اس کا فیصلہ وقت کرے گا جو سب سے بڑا منصف ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button