باقر نجفی کا فیصلہ اور حقیقی پاکستان

لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات ایگزیکٹیو سے کروانے کے نوٹی فکیشن کو معطل کردیا پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائر پنجاب میں انتخابات ایگزیکٹیو سے کروانے کے خلاف دائر درخواستوں پر جسٹس باقر نجفی نے پانچ صفحات پر مشتمل محفوظ تحریری فیصلہ جاری کردیافیصلے میں جسٹس باقر نجفی نے عام انتخابات ایگزیکٹو سے کروانے کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کیا اور درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل دینے کی سفارش کردی جسٹس علی باقر نجفی نے فائل چیف جسٹس کو ارسال کرتے ہوئے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا کہ انتخابات پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اگر بڑی سیاسی جماعتیں الیکشن نتائج تسلیم نہ کریں تو غریب قوم کے اربوں روپے ضائع ہوں گے الیکشن کمیشن کو صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا ہے شفاف انتخابات کو حقیقت میں بدلنے کیلیے امیدواروں اور ووٹرز کو یکساں مواقع فراہم کرنے ہیں موجود صورتحال میں جنرل الیکشن سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے جس سے جمہوریت کا مستقبل کمزور ہوسکتا ہے لاہور ہائیکورٹ کے تحریری حکم نامے میں واضح لکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بیورورکریسی سے خدمات لینے کا نوٹیفکیشن معطل کیا جاتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے ہمارے ہاں آج تک جتنے بھی الیکشن ہوئے متنازعہ ہی ہوئے ایک پارٹی جیت گئی تو دوسری نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا تو ملک مزید معاشی مسائل کا شکار ہوگیا اسکے بعد ملک بھر میں نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن نے مقررہ مدت میں الیکشن نہیں کروائے اب ملک میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں تو انہوں نے بیوروکریسی کو بھی اس الیکشن میں شامل کردیا جسے لاہور ہائیکورٹ نے معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ہی مکمل ذمہ داری دی ہے کہ وہ بیوروکریسی کو اس الیکشن میں استعمال نہ کرے یہ تو تھی تازہ ترین صورتحال اگر ہم قیام پاکستان جائزہ لیں تو 1947 میں کے بعد سے پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوری جمہوریہ ہے جہاں پاکستانی عوام ایک دو ایوانی مقننہ یعنی پاکستان کی پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں پارلیمنٹ ایک ایوان زیریں پر مشتمل ہے جسے قومی اسمبلی کہا جاتا ہے جس کا براہ راست انتخاب عوام کے زریعے ہوتا ہے جبکہ ایوان بالا سینیٹ کہلاتا ہے جس کے اراکین کا انتخاب صوبائی قانون ساز منتخب کرتے ہیں ہمارے ہاں چونکہ جمہوری نظام رائج ہے اور حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے جو قومی اسمبلی کے اکثریتی اراکین کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے جبکہ سربراہ مملکت صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے کیا جاتا ہے جو چاروں ایوانوں کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر مشتمل ہوتا ہے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ پاکستان میں پانچ ہزار سے زیادہ منتخب مقامی حکومتیں بھی ہیں جو نچلی سطح پر عوام کے لیے کام کرتی ہیں ملک میں الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہوتا ہے جو ایک آئینی طور پر قائم کردہ ادارہ ہے جس کی صدارت ایک مقرر اور نامزد چیف الیکشن کمشنر کرتا ہے پاکستان کے آئین کا حصہ VIII باب 2 اور مختلف ترامیم میں عام انتخابات کے انعقاد کی وضاحت کرتا ہے قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے اور سینیٹ 100 نشستوں پر مشتمل ہے (سابق فاٹا کے انضمام کے بعد)جسکے اراکین چاروں صوبوں سے منتخب ہوتے ہیں آئین یہ حکم دیتا ہے کہ عام انتخابات ہر پانچ سال بعد اس وقت کرائے جائیں جب قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کر لے یا تحلیل ہو جائے اور سینیٹ کے انتخابات چھ سال کی مدت کے لیے ارکان کے انتخاب کے لیے کرائے جائیں قانون کے مطابق قومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے کے دو ماہ کے اندر عام انتخابات کا انعقاد ضروری ہے اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہندوستان کے مسلمانوں نے انیسویں صدی کے وسط سے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر الگ وطن کے لیے جدوجہد شروع کر دی تھی برطانوی حکمرانوں نے محسوس کیا کہ ہندوستان کے ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں جنکی اپنی اپنی سماجی و ثقافتی طرز زندگی ہے 3 جون 1947 کو ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے برصغیر کے تمام رہنماؤں کی کانفرنس بلائی اور انہیں اقتدار کی منتقلی کے لیے اپنی حکومت کے منصوبے سے آگاہ کیا 26 جولائی 1947 کو شائع ہونے والے گزٹ آف انڈیا میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کو 69 ممبران کی شکل دی گئی تھی (بعد میں ممبران کی تعداد بڑھا کر 79 کر دی گئی تھی) جس میں ایک خاتون ممبر بھی شامل تھی پاکستان کی ریاست 1947 کے آزادی ایکٹ کے تحت بنائی گئی تھی اس ایکٹ نے موجودہ دستور ساز اسمبلیوں کو مقننہ بنا دیا ان اسمبلیوں کو وہ تمام اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی جو پہلے مرکزی مقننہ کے ذریعہ استعمال کی جاتی تھیں پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 10 اگست 1947 کو سندھ اسمبلی بلڈنگ کراچی میں منعقد ہوااور 11 اگست 1947 کو قائداعظم محمد علی جناح کو متفقہ طور پر پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا اور قومی پرچم کو اسمبلی نے باضابطہ طور پر منظور کیاتھااور پھر12 اگست 1947 کو محمد علی جناح کو باضابطہ طور پر ”قائد اعظم محمد علی جناح” کے خطاب سے متعلق ایک قرارداد منظور کی گئی اسی دن ”پاکستان کے شہریوں اور اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی کمیٹی” کے نام سے ایک خصوصی کمیٹی مقرر کی گئی تھی جو قانون سازی کے مقصد کے ساتھ شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق معاملات پر اسمبلی کو مشورے دیگی اور پھر 14 اگست 1947 کو اقتدار کی منتقلی ہوئی ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کیااور قائداعظم نے ایوان میں اسکے خطاب کا جواب دیا جس پر ریاست پاکستان کے اصولوں کی بنیاد رکھی گئی 15 اگست 1947 کو قائداعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا چیف جسٹس آف پاکستان میاں سر عبدالرشید نے ان سے عہدے کا حلف لیا اورقائدسعظم اپنی وفات تک یعنی 11 ستمبر 1948 تک اس عہدے پر فائز رہے اسکے بعد سے سے لیکر آج تک ملک میں جتنے بھی الیکشن ہوئے وہ متنازعہ ہی رہے بلکہ انہی الیکشن کے باعث آدھا پاکستان ہم سے جدا ہوگیا امید ہے کہ اب آنے والے الیکشن منصفانہ ہونگے تاکہ حقیقی پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button