اہل سیاست کو ایک پیج پر آنا ہوگا !

ملک میں عام انتخابات جوں جوں قریب آتے جارہے ہیں ، توں ہی تحریکِ انصاف کو الیکشن سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوششیںتیز ہوتی جارہی ہیں، جو کہ ایک جمہوریت دشمن روش ہے اور اس جمہوریت دشمن روش پر جمہوریت کے بڑے علمبردار ہی عمل پیراں دکھائی دیتے ہیں ،اس امکان کا اظہاربھی کیا جارہا ہے کہ عمران خان کو نااہل قرار دے دیا جائے گا اور تحریکِ انصاف پر پابندی لگا دی جائے گی، اگر ایسا واقعی کیا جاتا ہے تو یہ جمہوریت مخالف ہونے کے ساتھ بنیادی حقوق مخالف عمل کی ایک ایسی شرمناک کوشش ہوگی کہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
اس ملک میں ایسا سب کچھ پہلی بار نہیں ہورہا ہے ، یہاں ہر دور میں ایسا ہی کچھ ہوتا رہا ہے ، اہل سیاست اپنے مخالف کو اپنے راستے سے ہٹانے کیلئے ایسے ہی حربے استعمال کرتے رہے ہیں ، اس کا نشانہ ہر کوئی بنا ہے ،لیکن کسی نے سبق سیکھا ہے نہ ہی پرانی روش ترک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، اس پرانی روش پر وہی پرانی غلطیاں بار بار دہرائی جارہی ہیں ، یہ ان غلطیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ جمہوریت اتنی زیادہ کمزور اور غیر جمہوری قوتیں اتنی زیادہ مضبوط ہوئی ہیں کہ جمہوری لوگوں کو غیر جمہوری لوگوںکے سہارے ہی اقتدار میں آنا پڑرہا ہے ۔
اس ملک میں ایسا جو کچھ بھی ہورہا ہے ، وہ اہل سیاست کی نااتفاقی اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کی روش کے باعث ہی ہو رہا ہے ،میاںنوازشریف کہتے ہیں کہ عمران خان کو ایک سازش کے تحت مسلط کیا گیا تھا ، اس نے ہی ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کیا ہے، جبکہ یہ بتاتے ہوئے عمران خان جیل چلے گئے ہیں کہ لندن پلان کے تحت نوازشریف کو ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے، اس کا فیصلہ تو تبھی ہو سکتا ہے کہ جب اہل سیاست اپنے خیمے میں کسی غیر سیاسی کو داخل ہو نے کی اجازت نہیں دیں گے،، لیکن ایساکچھ بھی ہوتا دورتک دکھائی نہیں دیے رہا ہے ۔
یہ اقتدار کی کشش ایک ایسی کمزوری ہے کہ جس کا سبھی شکار ہو جاتے ہیں، بس طاقتور حلقوں کی جانب سے اشارہ ملنے کی دیر ہوتی ہے، ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر نہ صرف اپنی وفاداری کا یقین دلانے پہنچ جاتا ہے،بلکہ ڈیل اورڈھیل کے ذریعے اقتدار بھی حاصل کرلیتا ہے ، لیکن یہ مانگے تانگے کا اقتدار اپنے ساتھ بہت ساری مجبوریاں اور کمزوریاں بھی لاتا ہے،اس کے بعد نہ جانے کیوں شکوہ کیا جاتا ہے کہ منتخب وزیراعظم کو کام کرنے نہیں دیا جاتاہے ، یہ لانے والے پھر ڈکٹیٹ بھی تو کرتے ہیں، اس میں انہونی کیا ہورہی ہے، اس ملک کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کسی وزیراعظم کو آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی تو کسی کو زبر دستی نکالا گیا توکوئی خود ہی چلا گیا اور بعض کو نشانِ عبرت بنانے کی حکمت عملی بھی اختیار کی گئی ، تاکہ آنے والوں کو بھی پتہ چل جائے،لیکن یہاں پر تو ہر کسی نے دوسرے کے انجام سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے ۔
یہ بات سب کیلئے ہی حیران کن رہی ہے کہ بار بار ایک ہی نوعیت کے واقعات ہونے اور غیرسیاسی قوتوں کے نشانہ بنانے کے باود اہل سیاست سبق کیوں نہیں سیکھتے ہیں ، یہ متحد کیوں نہیں ہوجاتے ہیں؟ یہ کیوں طے نہیں کرلیتے ہیں کہ عوام کے پاس جائیں گے اور صرف عوام کے ووٹ کے ذریعے ہی اقتدار میں آئیں گے اور کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کریں گے، اہل سیاست ایسا کچھ بھی نہیں کریںگے ،کیو نکہ انہیںچور دروازے سے اقتدار حاصل کرنے کی عادت ہو گئی ہے ،لیکن اس حقیقت کو ہر بار ہی فراموش کر دیتے ہیں کہ کسی کا دست نگر بن کر چور دروازے سے حاصل کیا گیا اقتدار ایک سیاسی خیرات ہے، جو کہ کسی وقت بند کرکے کسی دوسرے کو بھی دی جا سکتی ہے۔
اس بات سے اہل سیاست بخوبی آگاہی رکھتے ہیں ،اس کے باوجود کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھومے جا رہے ہیں، یہ اپنے تائیں ایک قدم آگے بڑھنے کی کوشش میںتین قدم پیچھے آ تے جارہے ہیں، اس سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ جمہوریت اور جمہوری عمل کو مضبوط کیا جائے ، یہ جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہو سکتی ہے کہ جب سیاسی جماعتیں اب تک کے تجربات سے سیکھتے ہوئے تہیہ کرلیں کہ جمہوریت کی پاسداری کریں گی اور صرف اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف اپناکندھا پیش نہیں کریں گی ،اب کوئی لاڈلا بنے گا نہ ہی کوئی معتوب ہو گا، عوام کے علاوہ کوئی پیج نہیں ہو گا اور اس ایک پیج پر ہی سب رہیںگے ، اہل سیاست ایک پیج پر آئیںگے تو ہی ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آپائے گا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button