راستے کا پتھر

کسی نے سیاست کے بارے میں2حیرت انگیز سچ بتائے تھے ایک تو سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے تاریخ کی طرح اس کے سینے میں بھی دل نہیں ہوتا دوسرا سیاست میں کوئی چیز حرف ِ آخرنہیں ہوتی پاکستان کی پون صدی کی سیاست انہی دو سچائیاں کے گرد آج تک گھوم رہی ہے ایک وقت تھا جب ضیاء الحق کے دور سے میاںنوازشریف کی’’ نظریاتیــ‘‘ جمہوریت اور پوری کی پوری سیاست بے نظیر بھٹو کو زچ کرنے کا نام تھا میاںنوازشریف نے بینظیر بھٹوکو سیکورٹی رسک قراردیا،بھارت کو علیحدگی پسند سکھ رہنمائوں کی فہرستیں فراہم کرنے کاالزام لگایا ، آصف علی زرداری کو مسٹرٹین پرسنٹ کا خطاب دیا اور مسلم لیگ ن نے اس کااس قدر پروپیگنڈ ہ کیا کہ اس کی باز گشت آج تک سنائی دیتی ہے میاں نوازشریف پر بے نظیربھٹو کی بے ہودہ تصاویر جہازکے ذریعے پھینکوانے کابھی الزام لگایا جاتاہے پھرسیاست نے ایک نئی کروٹ لی اور اسی نوازشریف نے اپنی جلاوطنی کے دوران بے نظیر بھٹو سے میثاق ِ جمہوریت کرلیا اسے حالات کی ستم ظریفی کہیے یا سیاست کی بے رحمی کہ ایک دوسرے کے کٹر مخالف اور نظریاتی دشمن بہن بھائی بن گئے لیکن بھولی بھالی عوام کو کچھ سمجھ نہیں آ ئی یہ ہوا کیاہے ایک دوسرے کے خلاف آخری حد تک جانے والے نظریاتی مخالف نہ جانے کب حلیف بن گئے اس کے بعد موصوف کے چھوٹے بھائی شہبازشریف نے بھرے جلسہ میں آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑکر ملکی دولت برآمدکرنے کااعلان کیا پھرلوگوںکی گناہگار آنکھوںنے وہ منظربھی دیکھا جب شہبازشریف آصف علی زرداری کے ڈرائیوربن گئے بہرحال اس وقت بھی کئی لوگ اس طرزِ عمل کو دونوںکے مابین نورا کشتی کہتے رہے اگر لوگ ایسا کہتے تھے تو ٹھیک ہی کہتے تھے یہ ایک لیڈرپر ہی موقوف نہیں تقریباً سب کا ایک ہی حال ہے یعنی اس حمام میں سب ننگے ہیں ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے رہنما ایک دوسرے کے کپڑے اتارکرننگا کرنا اپناحق سمجھتے تھے پھراس پر اترانا برسوںاپنا استحقاق سمجھتے رہے بہت سوں کو یاد ہوگا ابھی چندسال پہلے گذشتہ عام انتخابات سے پیشتر مسلم لیگ Qکے صدر چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی نے مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد،سیٹ ایڈ جسٹمنٹ یا اپنی پارٹی ضم کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ان دنوں مسلم لیگ ن کے رہنما تو ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف نے ان کو گھاس تک نہیں ڈالی اب چند دن پہلے میاں نوازشریف بقلم خود چوہدری ہائوس جا پہنچے اور چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کے دوران دونوں رہنمائوں نے سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کا فارمولا طے بھی طے کرڈالا یہ اسے کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے یقینا اس کے پیچھے واحد اپوزیشن عمران خان کا خوف کارفرماہے ۔دوسری جانب ’’ صادق اور امین‘‘ عمران خان کے بارے ایسے ایسے انکشاف ہورہے ہیں کو عام آدمی حیران پریشان ہیں کہ کسے راہزن سمجھیں کسے رہنما خیال کریں۔ کبھی کبھی خیال آتاہے ہم پاکستانیوںکی قسمت بھی کیا قسمت ہے ہمیں لیڈربھی وہ ملے ہیں جو انتہائی مکار ،ڈرامہ باز اور فقط اپنے لئے دولت کے پہاڑ جمع کرنے والے ملے ہیںاور اتنے بے شرم کہ تین تین چار چار بار اقتدار میں آنے کے باوجود اب بھی کہتے ہیں کہ ہم پھر حکومت بناکر عوام اور پاکستان کی تقدیر بدل دیں گے بندہ سوچے پہلے انہوںنے کیا تیر مارا کہ اب ان پر یقین کرلیں لیکن ٹھہرئیے صاحب الیکشن آنے دیں عوام اب بھی انہی کے حق میں نعرے مارتے دکھائی دیں گے اس لئے نوا زشریف کی ایکٹو صاحبزادی مریم نواز اورآصف علی زرداری کے ہونہار سپوت بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم کی دوڑمیں شامل ہیں دونوں وزارت ِ عظمیٰ کو اپنا حق سمجھتے ہیں اپنے بلاول بھٹو زرداری روزانہ میاں نوازشریف کو کھری کھری سنارہے ہیں عمران خان تو OUTہے وہ یقینا سمجھتے ہیں کہ میاںنوازشریف ہی ان کی وزارت ِ عظمیٰ کی راہ میں رکاوٹ ہیں ا ن کا کہناہے کہ پاکستان میں الیکشن کیسے ہوتے ہیں میں یہ جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ پاکستان کے عوام جب جاگ جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں رو ک سکتی چوتھی بار وزیراعظم بننے والے ملک کو کیامشکلات سے نکالیں گے؟ اس کے جواب میں مسلم لیگ ن ’’چپ شاہ ‘‘ بنی ہو ئی ہے اس کے پیش ِ نظرایک ہی ایجنڈہ ،ایک ہی ہدف ہے کہ وزیر ِ اعظم کیسے بننا ہے میاںنوازشریف اور آصف علی زرداری دونوں عمرکے آخری حصے میں ہیں دونوں کی دلی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اپنے اپنے جانشینوںکو وزارت ِ عظمیٰ پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں اس صورت ِحال میںمیاںنوازشریف اور آصف علی زرداری کی حکمت ِعملی کیا ہوگی کچھ نہیں کہاجاسکتالیکن ان کے راستے کا پتھر عمران خان کی صورت میںایک ڈرائونا خواب ہے جس کو وہ ہرقیمت پر سیاست،جمہوریت اور الیکشن سے مائنس کرنا چاہتے ہیں شنیدہے اس کے لئے درجنوں تدبیریں تراشی جارہی ہیں ابھی سے تحریک ِ انصاف کے کارکنوںکا دیوارسے لگانے کا عمل جاری ہے خود عمران خان کے خلاف درجنوں مقدمات زیر ِ سماعت ہیں اس وقت پارٹی کی سیکنڈ لیڈر شپ بھی ایکٹو نہیں ان پر خوف و ہراس کاماحول طاری ہے کارکن کھل کر عمران خان اور تحریک ِ انصاف کا نام لینے سے گریزاں ہیں کوئی نہیں جانتا عمران خان اور ان کی پارٹی کا مستقبل کیا ہے؟ بہرحال کسی سیاستدان کو عوام میں اپنی مقبولیت پر نہیں اترانا چاہیے پہاڑوںسے بلند مقبولیت محض ایک9مئی کی مارہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button