روح کے زخم

ہرسال دسمبر آتاہے تو دل کے زخم اس طرح ہرے ہوجاتے ہیں جیسے ان سے لہو رس رہاہو کئی مرتبہ دعا بھی کی ہے الہی اس سال دسمبر نہ آئے یہ مہینہ بھی ایسا ظالم ہے جو روح پر تازیانے لگاکرنئے سال کی رنگ رنگیوںمیں گم ہو جاتاہے یہ نصف صدی پہلے کی بات ہے جو لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر بننے والی دنیا کی پہلی مملکت ِخداداد دو لخت ہوگئی اس عزیمت،ذلت اور شکست نے سقوطِ ِغرناظہ اور سقوط ِ بغداد کی یادتازہ کردی اوروطن سے محبت کرنے والوںکورلاکررکھ دیا کچھ لوگوںکادعویٰ ہے کہ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننے کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرماتھے یہ فوجی شکست نہیں۔۔وجہ کچھ بھی ہو دل نہیں مانتا شکست شکست ہوتی ہے سیاسی ہویا عسکری حقیقت تو یہ ہے کہ دشمن کی سازش کامیاب رہی اور پاکستان دوٹکرے ہوگیا اور اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندراگاندھی نے بڑے غرور سے کہا تھا ہم نے دوقومی نظریہ سمندرمیں غرق کردیالیکن یہ اس کی خام خیالی تھی مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننے کے باوجود دوقومی نظریہ پوری آب وتاب سے زندہ ہے اس کا بین ثبوت بھارت میں ہونے والے مسلم کش فسادات ہیں ۔بہرحال بات ہورہی تھی دسمبر کی ۔۔وہ دسمبرجس میں پاکستان دولخت ہوگیامیں آج بھی نہیں بھولا،مجھے یادہے بچپن کی ایک تلخ حقیقت کے وہ مناظرلگتاہے جیسے میرے آنکھوںمیںوہ دھندلے نقوش مقیدہوکررہ گئے ہیں یخ بستہ دسمبرکی وہ رات جب نہ جانے خاندان کے کتنے افرادٹرانسسٹرکے گرد جمع تھے ان میں وہ بھی موجودتھے جنہیں کبھی ریڈیو سے دلچسپی نہیں تھی عجیب و غریب قیا س آرائیاں ہورہی تھیں مرحوم و مغفور اباحضور نے میرے بڑے بھائی کو مخاطب کرکے کہا
‘‘ ریاض تم نے غلط سناہوگا مجھے تو یقین نہیں آرہا۔
’’ یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا بھائی ریاض نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا
نہ جانے کس نے تیز آوازمیں کہا سب چپ ہوجائو خبروںکا وقت ہوگیاہے اور میں اس سوچ میں گم تھا نہ جانے یہ لوگ کیسی باتیں کررہے ہیں اور آج ان سب کویکایک ٹرانسسٹر سے کیوں محبت ہوگئی ہے خیر خبریںشروع ہوئیں تو گویا سکوت ِ مرگ طاری ہوگیاپہلی ہی ہیڈلائن سے ہی بدترین خدشات بھیانک حقیقت بن گئے میں نے دیکھاسب چیخیں مارکررونے لگ گئے جیسے کسی قریبی عزیزکی موت واقع ہوگئی ہو میں حیران پریشان ہرکسی کا چہرہ دیکھتا پھررہاتھا لیکن وہاں تو ہر چہرہ حسرت ویاس کا مرقع تھاسمجھ نہیں آرہی تھی ان لوگوںکوکیاہوگیاہے۔شعورآیاتو پتہ چلاقائدِ اعظمؒکاپاکستان آدھاہوگیاتھا۔
کبھی کبھی یہ خیال آتارہا پاکستان کی اساس تو لاالہ الا اللہ تھی پھریہ کیونکرہوا غورکیا تو شعور،لاشعورکی کھڑکیاں کھلتی چلی گئیں عام طورپر مشہورہے پاکستان کو دولخت کرنے کے تین کردار شیخ مجیب الرحمن،انداراگاندھی اور ذوالفقارعلی بھٹوہیں اور چوتھا کردار جنرل یحییٰ خان تھا جو دراصل اقتدار کے ایوانوںکی کٹھ پتلی تھا ذلت،رسوائی کے عالم میں خوفزدہ ہوکرقید ِ تنہائی میںانتقال کرگیااسے کوئی بھی اچھے الفاظ میں یادنہیں کرتا باقی تین کرداروںکا تجزیہ کیا جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ شیخ مجیب الرحمن،انداراگاندھی اور ذوالفقارعلی بھٹو اپنے اپنے ملکوں کے مقبول ترین رہنما تھے کروڑوں دلوںپر حکمرانی کرنے والے لیڈر جن کے نام پر آج بھی سیاست کی جارہی ہے شیخ مجیب الرحمن کو بنگلہ دیش کا بانی کہاجاتاہے بہت سے بنگالی اسے اپنی قوم کا نجات دہندہ بھی کہتے ہیں لیکن چارسال بعد ہی اس بابائے قوم کو 15اگست 1975 ء کے اس کے خاندان سمیت بے دردی سے قتل کردیا گیا صرف ان کی بیٹی حسینہ واجد ہی محفوظ رہیں کیونکہ وہ اس وقت وہاں موجود نہ تھیں سقوط ِ ڈھاکہ کا دوسرا کردار انداراگاندھی تھیں جو پاکستان کو دوٹکرے کرکے پورے بھارت کی ہیرو بن چکی تھیں13اکتوبر1984ء کو ان کے اپنے محافظوں نے اس وقت گولیوںسے بھون ڈالا جب انہیں گارڈآف آنردیا جارہا تھا اور تیسرے کردار ذوالفقارعلی بھٹو کو ایک قتل کے الزام میں سزائے موت کا حکم سنایا گیا اس وقت کے صدرِ پاکستان ضیاء الحق کی توثیق کے بعد4اپریل1979ء کو پھانسی دیدی گئی دیکھا جائے تو یہ قدرت کا انتقام بھی کہا جاسکتاہے کہ پاکستان توڑنے والے تینوںکرداروںکی موت غیرفطری اندازمیں ہوئی قدرت نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ شیخ مجیب الرحمن،انداراگاندھی اور ذوالفقارعلی بھٹو کی کوئی(MALE) اولاد ِ نرینہ زندہ نہیں رہی سب کے سب کسی نہ کسی انداز میں قتل کردئیے گئے اللہ کی ظاہرنشانیوں پر اب بھی کسی کو کوئی شک ہے تو وہ تاریخ کا مطالعہ کرلے یہ عبرت کا مقام ہے کہ پاکستان توڑنے والوںکی نسل ختم ہوگئی دنیا کی تاریخ میں اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ملتی کہ پاکستان توڑنے والوںکا انجام کس قدرخوفناک،افسوسناک اور دہشت ناک ہوا اور سب میں کئی قدریں مشترک ثابت ہوئیں کہ تینوںکردار غیرفطری موت مارے گئے ، تینوں خاندانوں میں کوئی مرد سربراہ زندہ نہیں سب کے سب کا ایک جیسا انجام ہوا۔ پاکستان تاقیامت قائم رہنے کے لئے معرض ِ وجودمیں آیاہے پاکستان کے دشمن یہ بات جان لیں کہ اس مملکت ِ خداد دادکا براسوچنے والوںکو اللہ تبارک تعالیٰ عبرت کا نشان بناکررکھ دے گا اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔اس کے باوجود جب دسمبرآتاہے تو دل کے زخم ہرے ہوجانا ایک منطقی بات ہے یقیناسقوط ِ ڈھاکہ ایک خوفناک سانحہ تھا لیکن اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا قوم کو آزادی کی قدرہے نہ قیمت کااندازہ اس ماحول میں محبت ِ وطن اپنی روح کے زخم کسے دکھائیں کہ بیشتر حال مست مال مست بنے ہوئے ہیں ہر قسم کی سیاسی وابستگی اور شخصیات سے بالا ترہوکر ایک پاکستانی بن کر سوچیں کیونکہ زندو قومیں اپنی تاریخ اور ماضی سے سبق سیکھتی ہیں کہ غلطیوںکااعادہ نہ ہو ہم ہیں کہ دائرے میں سفرکرتے کرتے منزل تلاش کرتے پھررہے ہیں اسی لئے ہرسال دسمبر آتاہے تو دل کے زخم اس طرح ہرے ہوجاتے ہیں جیسے ان سے لہو رس رہاہو کئی مرتبہ دعا بھی کی ہے الہی اس سال دسمبر نہ آئے یہ مہینہ بھی ایسا ظالم ہے جو روح پر تازیانے لگاکرنئے سال کی رنگ رنگیوںمیں گم ہو جاتاہے اللہ ہماری حالت پررحم فرمائے (آمین)

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button