شفاف انتخابات کی جانب بڑھتے عوام !

ملک میںعا م انتخابات سے متعلق ساری ہی قیاس آرائیاں دم توڑ گئی ہیں،عدالت عظمیٰ پہلے ہی کہہ چکی ہے اور اب الیکشن کمیشن نے بھی حتمی طور پر اپنے بیان میں واضح کردیاہے کہ عام انتخابات آٹھ فروری کو ہی ہوں گے اور یقینی طور پر ہوں گے، اس تاریخ میں کوئی ردوبدل نہیں کیا جائے گا،الیکشن کمیشن کے بیان کے بعد سے بے یقینی کے بادل چھٹنے لگے ہیں اور اہل سیاست کے ساتھ عوام کو بھی یقین آنے لگا ہے کہ ملک میں عام انتخابات بروقت ہو نے جارہے ہیں۔
یہ اچھی بات ہے کہ ملک میں انتخابات بروقت ہو نے جارہے ہیں ، لیکن یہ انتخابات آزادانہ شفاف غیر جانبدارانہ
بھی ہو نے چاہئے ،ایک شفاف غیر جانبدارانہ انتخابات کرانابہر حال الیکشن کمیشن کی ہی ذمے داری ہے، نگران حکومت اورالیکشن کمیشن باور کروارہے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری ہر حال میں پوری کر یں گے ،اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے پولنگ اسٹیشن پر فوج کو تعینات کرنے کی درخواست بھی وزارت داخلہ کو بھیج دی ہے،لیکن شفاف منصفانہ انتخابات کیلئے ایسا ساز گار ما حول بھی ساری سیاسی جماعتوں کو دینا ہو گا کہ جس میںنہ صرف آزادانہ انتخابی مہم چلائی جاسکے ،بلکہ برابری کی بنیاد پر شریک بھی ہوا جاسکے ،اگر انتخابات میںکسی کو مائنس اور کسی کو لاڈلا بنا کر پیش کیا گیا توشفاف غیر جانبدارانہ انتخابات کا تاثر کبھی قائم نہیںہو پائے گا۔
اس ملک میں ہر کوئی شفاف غیر جانبدارانہ انتخابات کی باتیں کررہا ہے ،لیکن کیا انتخابات شفاف غیر جانبدارانہ ہو پا ئیں گے ؟اس بارے سب ہی بے یقینی کا شکار ہیں ،کیو نکہ ایک آزادانہ شفاف غیر جانبدارانہ انتخابات کا ماحول کہیں دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،ایک سیاسی پارٹی کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو دوسری کے سر پر دست شفقت رکھا جارہا ہے ،جبکہ تیسری اپنے لیے لیول پلینگ فیلڈ مانگے جارہی ہے ، اس جانب دارانہ فضا میں کیسے شفاف انتخابات ہوں گے اور اس دبائو کے ساتھ الیکشن کمیشن کیسے شفاف منصفانہ انتخابا کرا پا ئے گا ؟ نگران حکومت سے لے کر الیکشن کمیشن تک جتنے مرضی دعوئے کر لیں ، جتنی مرضی یقین دھانیاں کرالیں ، کوئی یقین کرے گا نہ ہی کو ئی مانے گا کہ انتخابات شفاف غیر جانبدارانہ ہوئے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ اپنی مرضی سے انتخابات کر نے والے اپنی ہی مرضی کے مطابق انتخابات کروا رہے ہیںاور کوئی اعتراض کررہا ہے نہ ہی آواز اُٹھا رہا ہے ، سارے ہی الیکشن کی تیاریوں میںلگ گئے ہیں ،جبکہ ادارتی طریقہ کار بھی خصوصی طور پر متعین ہے کہ جس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی ہے،اس میں پہلے سے ہی پلان تیار ہیاور اس پلان کے مطابق انتخابی عملے میں خاص کسی ایک جماعت کے حامیوں کو بھرتی کیا جاتا ہے،میڈیا کو پابند کرنے کے ساتھ سرکاری مشینری اور فنڈز کو استعمال کیا جاتا ہے، انتخابات سے قبل کی دھاندلی پورے اعتماد سے کی اور کرائی جاتی ہے، اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہو گا ، لیکن اسے کوئی روک سکتا ہے نہ ہی روک پا ئے گا ،اس کے آثار صاف دکھائی دیے رہے ہیں ۔
عا م انتخابات میں کیا کچھ ہو نے جارہاہے ، اس سے سب ہی آگا ہی رکھتے ہیں ،اس کے باوجود بہتر اُمید کے ساتھ بھر پورشرکت کرتے ہیں ، الیکشن کمیشن بھی بظاہر انتخابات شفاف بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے داخلی الیکشن، ملکی وسائل کو انتخابی عمل میں استعمال کی ممانعت، انتخابی عمل مکمل ہونے تک سرکاری افسران کے تبادلوں پر پابندی، امیدوار کے انتخابی اخراجات میں ایک حد کا تعین جیسے احکامات جاری کرتا ہے، لیکن ان احکامات پر کبھی عمل درآمد ہوا ہے نہ ان کی خلاف ورزیوں کی شکایات پر کان دھرے گئے نہ ہی ملزمان کے خلاف کوئی قدم اٹھایا جاتا رہا ہے،انتخابات میںجعلی ووٹ بھگتانے کے باقاعدہ ویڈیو ثبوت پیش ہوتے رہے ہیں،اس کے باوجود آج بھی پرانے نظام کے تحت ہی انتخابات کر نے کی ضد ہے ،حالاں کہ بائیومیٹرک سسٹم بھی موجود ہے، جو کہ جعلی ووٹ نہ صرف روک سکتا ہے ،بلکہ شناخت بھی کرسکتا ہے۔
اگر ملک میںشفاف منصفانہ انتخاب کر نے ہوں تو بہت آسان ہیں ، لیکن الیکشن کمیشن، نگراں حکومت اورطاقتور حلقے چاہتے ہیں نہ ہی انہیں سوٹ کرتے ہیں،اس لیے پرانے ہی سسٹم کے تحت کروائے جاتے ہیں ، اس بار بھی پرانے سسٹم کے تحت ہی ہونے جارہے ہیں ،اس کے باجود ہر بار ہی عوام پر اُمید رہتے ہیں، اس بار بھی اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں ناساز حالات کے باوجود آٹھ فروری کو آزادانہ شفاف طریقے سے اپنا ووٹ دینے کی نہ صرف آزادی ملے گی ،بلکہ ان کے ہی فیصلے کو من وعن مانا بھی جائے گا ، اللہ کرے کہ عوام کی اُمید نہ ہی ٹوٹے ، اس میں ہی سب کی بہتری ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button