ایک عالم کی موت کل کائنات کی موت کے مترادف ہے

ہمارے محترم و معزز اور مشفق استادمحترم۔استاد العلماء والفضلاء جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے سینئر استاد حضرت مولانا عبدالرحمان بہاولپوری یرحمہ اللہ قرآن مجید کا درس دیتے ہوئے رب تعالی کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔
رب تعالی کے محبوب بندے تمام عمر رب تعالی کے دین کی سرفرازی کا درس دیتے ہوئے اللہ جل شانہ کے کلام کو پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے دارفنا سے رخت سفر ہوچکے ہیں۔
ہم نے جامعہ امدادیہ میں درجہ اولی کی تعلیم کیلیے 2003 میں داخلہ لیا ۔بہت سے اساتذہ سے علم نحو و صرف وغیرہ میں استفادہ کیا حضرت مولاناعبدالرحمان صاحب سے عربی ادب سے تعارف پرمبنی کتاب الطریقہ العصریہ اور دوسرے سال ثانویہ عامہ میں تیسرالمنطق اورمجموعہ حدیث زاد الطالبین پڑھی۔ میری زندگی کاالمیہ کہیں یاکچھ اور کہ میں تعلقات بہت محدود رکھتاہوں البتہ اس میں وارفتگی و محبت اور دوام ضرور ہوتاہے۔
یہی وجہ ہے جامعہ امدادیہ میں چند ایک اساتذہ ایسے تھے جن سے قرب خاص حاصل ہوا۔جن میں جامعہ کے نائب مہتمم و شیخ الحدیث مولانازاہد صاحب۔علم صرف پڑھانے والے مفتی حفیظ الرحمان کشمیری صاحب اور عربی ادب پڑھانے والے اور علم منطق اورحدیث کا ابتدائی مجموعہ کا درس مولانا عبدالرحمان صاحب رحمہ اللہ اساتذہ شامل ہیں۔
حضرت مولانا عبدالرحمان بہاولپوری رحمہ اللہ سے محبت و عقیدت کا لامتناہی سلسلہ گزشتہ بیس سال سے جاری رہا۔میں انکو اپناسرپرست و مہربان اورمعاون سمجھتا تھاکہ اپنی امانت مالی وعلمی کو انہی کے سپرد کیا کرتاتھا۔جامعہ امدادیہ میں علمی استفادہ محدود کیا مگر۔جب بھی مولاناعبدالرحمان صاحب سے ملاقات کاارادہ کرتاتو رابطہ کرنے پر استادمحترم محبت وشفقت اور ہم تن منتظر رہتے مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے استاد جی سے عرض کیاکہ میں آرہاہوں تو استاد محترم نے خود اپنے ہاتھ سے ناصرف کھانابنایا اورگاجر کا حلوہ بھی تیار اور بوجہ سفر میں بہت تاخیر سے پہنچا تو رات کے گیارہ بجے تک استاد جی نے کھانا نہیں کھایا تھا یہ قریبا 2011 کا واقعہ ہے۔اگرچہ اس کے بعد استاد جی سے رابطہ و ملاقات نہ ہوسکی۔
تاہم چھ سات ماہ قبل استاد محترم سے ملنے کا اشتیاق ہوا تو استادجی رمضان میں عمرہ کی سعادت حاصل کرکے واپس آئے تو میں ان کے پاس ملاقات و زیارت کیلیے اوکاڑہ سے فیصل آباد جا پہنچا۔استاد جی کی خدمت میں حاضر ہواتو ان کی ناتواں صحت کو دیکھ دل مغموم ہوا۔سب سے بڑھ کر اس بات پر میں حزین ہوا کہ بوجہ بیماری شوگر اور دیگر امراض کی وجہ سے وہ تین منزلہ عمارت کے تیسری منزل پر قیام پذیر تھے۔ناظم رہائش گاہ اساتذہ کو ان کی صحت کے پیش نظر فرشی منزل پر گھر دینا چاہیے تھا۔بہرحال استاد محترم ہی نہیں محمد احمد بھائی اور ان کی بڑی باجی اور ہماری استانی صاحبہ نے دس بارہ سال کے عدم رابطہ کے باوجود پہنچاننے میں دیرنہ کی۔استاد محترم کی بڑی صاحبزادی و ہماری بہن ماشاء اللہ استاد جی اور والدہ کی تربیت ک مظہر ہیں اور اس نے خود اپنے کمپیوٹر پر کام اور درس و تدریس سے رقم جمع کرکے استادجی کی معیت میں ماہ مبارک رمضان میں عمرہ کی سعادت حاصل کی تھی۔
بعدازاں چھ ماہ قبل راقم نے دینی مدارس اسکول وکالج کے طلبہ و طالبات کیلئے لازمی تعلیمات اسلام تالیف کی تو سب سے پہلے اپنے استاد جی کو تاثرات ومشورہ کیلیے بھیجی تو استاد محترم نے طالب علم کے ذریعہ کتاب کی ناصرف سماعت کی بلکہ اپنے قیمتی تاثرات سے نوازکرمیری عزت افزائی کی اور ہمت بندھائی۔
استاد محترم بہت عاجز ومنکسر المزاج نرم خو اور ہمدرد و معاون ہوکر طلبہ کی سرپرستی فرمایاکرتے تھے۔ استاد جی کی شخصیت سے متعلق ان کے زیر تربیت تلامذہ جنہوں نے سال ہا سال کسب فیض کیا وہ جامع تبصرہ کرسکتے ہیں۔راقم کو بحیثیت استاد و سرپرست بہت کم ایسے اساتذہ سے ملنے کااتفاق ہوا جو طلبہ اپنے بچوں اور چھوٹے بھائیوں جیسا پیار کرتے ہوں۔استاد۔محترم میرے والد صاحب کی بھی ملاقات تھی اور دین وعمل سے متعلق استاد جی ہمیشہ رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔استاد محترم حضرت شیخ موسی روحانی بازی کا قصیدہ طوبی عنایت کیا اور مجھے اور والدہ کو پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
علی الصبح استاد محترم کی ناگہانی وفات کی خبر الم سن کر دل مغموم ہوگیامگر اطمینان اور فرحت کے پہلو کا بھی احساس ہوا کہ استاد محترم جس حالت وکیفیت میں رب تعالی کے حضورپیش ہوئے اس موت کی تمنا ہر مسلمان کرتاہے مگر ایں سعادت بزور بازو نیست۔
بوجہ سفر میں ہونے کی وجہ سے جنازہ میں شرکت نہ کرسکا۔لیکن دل سے دعا ہے کہ اللہ جل شانہ ہمارے استاد محترم کو قبر وحشر کی تمام منازل میں اسی طرح مہربانی و کرم فرمائی سے نوازیں جیسے استاد محترم اپنے شاگردوں اور متعلقین پر مہربان و کرم فرما رہے ہیں۔آمین

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button