منتخب حکومت کاکوئی نعم البدل نہیں !

ملک بھر میں عام انتخابات کیلئے لیکشن کمیشن نے آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان کررکھاہے اور ا س تاریخ پر ہی الیکشن کرانے کے لئے پر عزم بھی دکھائی دیتا ہے ،اس کے باوجود سیاسی فضا میں الیکشن مزید آگے بڑھا نے کی بازگشت سنائی دیے رہی ہے اور اس کا جواز دیا جارہا ہے کہ اس وقت انتخابات سے زیادہ ملک میں آمن و آمان کا قیام اور معیشت کو درست کرنا زیادہ اہم ہے، اس لیے نگران حکومت کو ہی کچھ دیر مزیدچلنے دیا جائے ، تاہم نگراں حکومت کی کارکردگی خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ رہے ،ایک منتخب حکومت کا نعم البدل نہیں ہو سکتی ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو نگران حکومت ملک میں آزادانہ منصفانہ انتخابات کرانے آئی ہے اور اس کا کام بھی شفاف انتخابات کرواکر چلے جانا ہے ،لیکن نگراں حکومت کی توجہ شفاف انتخابات کرانے کے بجائے معیشت کے سدھار پر ہے اور اس میں انہیں آرمی چیف کی بھی بھرپور معاونت اور رہنمائی حاصل ہے،عالمی مالیاتی ادارے بھی نہ صرف نگراں حکومت کی کارکردگی پر اپنے اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں ،بلکہ مزید مالیاتی وسائل قرض کی صورت فراہم کرنے کے لئے بھی تیار ہیں،اس کے علاوہ دیگر دوست ممالک بھی سرمایہ کاری پر آمادہ ہورہے ہیںتوغیر سیاسی حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ موجودہ نگراں حکومت کو ہی مزید وقت دیا جاناچاہئے، تاکہ معیشت کی بحالی کے مثبت نتائج ملنے کا سلسلہ جاری رہے ۔
یہ بات درست ہے کہ اس وقت معاشی امور کو جس انداز سے بہتری کی جانب لے جایا جارہا ہے، انتخابات کے باعث ان کے متاثر ہونے کا اندیشہ موجودہے ،اگر ملک میں عام انتخابات کے نتیجے میں کوئی مستحکم حکومت قائم نہ ہو سکی تو معاشی بہتری کی جانب بڑ ھتے ہوئے قدم رک جائیں گے،اس بات کانگراں حکومت کی جانب سے بھی اظہار جارہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے دورے کے بعد نگراں حکومت میں توسیع اور انتخابات کے التوا سے متعلق وزیر اعظم سے مشاورت ہونی ہے،اس طرح کے بیانات سے بھی انتخابات کے انعقاد سے متعلق شک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں، ایک طرف نگران حکومت کے بیانات ہیں تو دوسری جانب سیاسی قیادتیںبھی بہت سی الجھنوں کا شکار ہیں ،جبکہ انتخابات کے انعقادمیں دو ماہ کا ہی وقت رہ گیا ہے اور انتخابات کے لئے کوئی یکسو ئی کہیں دکھائی نہیں دیے رہی ہے۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ انتخابات سے متعلق عدالت عظمیٰ کی یقین دہانی اور تنبیہ کے باوجود انتخابات سے متعلق نہ صرف خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ،بلکہ انتخابات کے التواکیلئے کائوشیں بھی کی جارہی ہیں ، اس حوالے سے سب سے زیادہ اہل سیاست کے قول فعل میں تذاد ہے ، ایک طرف بروقت انتخابات کرانے کی باتیں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب آمن آمان کی خرابی اور معیشت کی بد حالی کی دھائی دی جارہی ہے ،مسلم لیگ (ن) طاقتور حلقوں کی اشیر باد کے باوجود سب سے زیادہ انتخابات سے خائف ہے ، مسلم لیگ (ن)قیادت کو جب تک انتخابات میں کا میابی کا مکمل طور پر یقین نہیں آئے گا ،وہ پی ڈی ایم قیادت سے مل کر انتخابات سے متعلق خدشات کا اظہار کر تے ہوئے انتخابات میں التوا کی کائوشیں بھی کرتے ہی رہیں گے ۔
در اصل مسلم لیگ (ن)قیادت کا سارا زور تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو سیاست سے مائنس کر انے پر ہے ، مسلم لیگ( ن )قیادت، تحریک انصاف قیادت کو سیاسی میدان سے باہر نکال کر نہ صرف اپنا بدلہ لینا چاہتے ہیں ،بلکہ انتخابات میں اپنی کا میابی بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں ، اس خواہش کی تکمیل میں غیر سیاسی قوتیں اُن کی بھر پور مد گار ثابت ہورہی ہیں ، لیکن اگر تحریک انصاف قیادت کو اپنے لاڈلے کی خواہش پر مائنس کیا گیا اور تحریک انصاف کو انتخابات میں آزادانہ شرکت کا موقع نہ دیا گیا تو عام انتخابات کا عمل ادھورا اور غیر شفاف ہی سمجھا جائے گااور اس کے نتائج سیاسی عدم استحکام کی صورت میں ہی سامنے آئیں گے ۔
اگر ملک میں جمہوریت کو فروغ دینا ہے اور سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کر نا ہے توپھرپی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ہی انتخابات میں شرکت کے یکساں مواقع دینے پڑیں گے، اس سلسلے میں مسلم لیگ( ن ) کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات کے باوجود ، تحریک انصاف کے انتخابات میں حصہ لینے کے سیاسی حق کے لئے آواز اٹھانی چاہیئے اور ایسی تمام کوششوں کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیئے کہ جس کے باعث کسی ایک سیاسی پارٹی کو سیاسی میدان سے باہر کیا جارہا ہے ، ملک میںجمہوری سیاست کے فروغ کے لیے سیاسی جماعتوں کو ایسا ہی جمہوری طرز عمل اختیار کرنے کی شدید ضرورت ہے، بصورت دیگر ایک دوسرے کے خلاف انتقامی سیاست کا سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
یہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کی بد قسمتی رہی ہے کہ ان میں جمہوری سوچ کا فقدان رہا ہے اور اس فقدان کو دور کر نے کی کوشش بھی نہیں کی جارہی ہے ، اہل سیاست کو اپنی منفی سوچ بدلتے ہوئے مثبت سوچ کے ساتھ جمہوری عمل کو آگے بڑھانا ہو گا، انتخابات کے انعقاد سے ہی جمہوری سیاسی عمل آگے بڑھے گا، ا نتخابات جو پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں اس میں مزید تاخیر کسی بھی وجہ سے نہیں ہو نی چاہئے، اس سلسلے میں پیدا کئے جانے والے اندیشے اور خدشات جمہوری عمل پر عدم اعتماد کا اظہار ہیں، اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کوایک واضح موقف اختیار کرتے ہوئے انتخابات کے مزید التوا کی مزاحمت کرنی چاہیئے،نگراں حکومت کی کارکردگی خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ رہے ،ایک منتخب حکومت کا نعم البدل نہیں ہو سکتی ہے ، ایک منتخب حکومت عوام کے ووٹ سے آتی ہے اور عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہوتی ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button