ہم تو ڈوبے ہیں صنم۔۔!

پاکستان تحریک انصاف نے جیسے تیسے انٹرا پارٹی انتخابات کراکے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی لاج رکھی اور سرخرو ہو گئی ہے،اس انتخابی عمل پر بہت سے سوالات اْٹھائے جا رہے ہیں ، اس میں بلا مقلہ منتخب ہونے پر اعتراضات کیے جارہے ہیں، اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں بلامقابلہ انتخاب کوئی اچنبھے کی بات ہے نہ ہی ایسا انتخابی عمل پہلی بار ہورہا ہے ،اس ملک کی ساری ہی سیاسی پارٹیاں اپنے انٹرا پارٹی انتخابات ایسے ہی کراتی ہیں، پاکستان مسلم لیگ(ن) کے انٹرا پارٹی انتخابات میں شہباز شریف اور اْن کا پینل بلامقابلہ منتخب ہوا تھا،اس طرح پیپلز پارٹی و دیگر تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں میں بھی کم و بیش اِیسے ہی پارٹی انتخابات کرائے جاتے رہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے توہمارے ہاں عرصہ دراز سے ایسی ہی روایت چلی آرہی ہے ،لیکن یہ خود کریں تو ٹھیک ہے، دوسرا کرے تو قصوروار ٹہرایا جاتا ہے،انٹرا پارٹی انتخاب ہر جماعت کا اپنا اندرونی مسئلہ ہے، کون چیئرمین ہے اور کون نہیں ہے ،یہ سوال اتنا اہم نہیں ہے،اہم بات یہ ہے کہ قانونی اور دستور کے تقاضے پورے کئے جائیں، ہر سیاسی جماعت کو قانونی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فیصلے خود کرنے کا مکمل اختیار ہے اور کوئی اُن کا حق لے سکتا ہے نہ ہی یہ حق زور زبردستی چھینا جاسکتا ہے ،تحریک انصاف نے انتخابات کرا دیئے اوررپورٹ الیکشن کمیشن کو پہنچ جائے گی،اب فیصلہ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہے کہ انتخابات میں کوئی جھول ہے یا نہیں ہے۔
ایک طرف مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی قیادت بڑے زور شور سے الیکشن کمیشن پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں تو دوسری جانب الیکشن کمیشن کے فیصلے کا انتظارکرتے ہیں نہ ہی اپنی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ ماننے کیلئے تیار ہیں ، یہ تحریک انصاف کو ہر صورت میدان سے نکلنا چاہتے ہیں ، لیکن ایسے نکلا جاسکے گا نہ ہی لاڈلا بن کر اپنی مرضی کی جاسکے گی ،اس لیے ہتر ہے کہ جو جس کا کام ہے، اْسے ہی کرنے دیا جائے اور خود اپنے کام پر توجہ دی جائے ، اِس وقت سب سے اہم انتخابات کی تیاری ہے، تمام سیاسی جماعتیں اپنی تمام تر توانائی وہاں خرچ کریں اور اِدھر اْدھر کی بحث میں اپنا وقت ضائع نہ کریں،اہل سیاست کو نہ صرف ووٹ کی طاقت پر یقین رکھنا ہے ، بلکہ قانون ، دستور کے اندر رہتے ہوئے اپنی سیاسی جنگ بھی لڑنا ہے ۔
اس ملک میں کوئی سیاسی جنگ لڑ رہا ہے نہ ہی جمہوری سیاست کو فروغ دیے رہا ہے ، یہاں جس کا جتنا بس چلتا ہے ،انتقامی سیاست کر رہا ہے ، اپنے مخالف کے خلاف مہم چلارہا ہے ، اپنے مخالف کی کرادر کشی کررہا ہے، اپنے مخالف کی آواززور زبر دستی دبارہا ہے اور اپنے مخالف کو مائنس کر نے پر تلا دکھائی دیتاہے ،اس کیلئے جائز و ناجائز طر یقے استعمال کیے جارہے ہیں ، مقد مات پر مقدمات بنائے جارہے ہیں ، ایک کے بعد ایک مقدمے میں رہائی پانے کے بعد ایک اور مقدمے میں پابند سلاسل کیا جارہا ہے، اس کے نتائج پہلے اچھے نکلے ہیں نہ ہی آئندہ نکلتے دکھائی دیتے ہیں ، اس کے باوجود نفرت کی سیاست ہے کہ کہیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔
اہل سیاست نے اپنے ماضی سے نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے ، یہ آج بھی اپنی پرانی ہی ڈگر پر گامزن ہیں ، یہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے ہیں ، یہ عوام کو روٹی ،کپڑا ،مکان دینے کے دعوئے بھی کرتے ہیں ،مگر یہ ووٹ کو عزت دیتے ہیں نہ عوام کو روٹی ،کپڑا ،مکان دیے پارہے ہیں ، یہ آزمائے لوگ ایسے چلے ہوئے کار توس ہیں کہ جن سے کوئی اُمید وابستہ کرنا ماسوائے خود کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ، اس کے باوجود ان چلے کار توسوں کو ہی آمایا جارہا ہے اور انہیں بار بار عوام پر ہی چلایا جارہا ہے ،انہیں آزمانے اور لانے والوں نہ جانے عوام سے کس بات کا بدلہ لے رہے ہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ مقتدرہ کسی نہ کسی بات پر عوام سے اتنا ناراض ضرور ہے کہ آزمائے کو ہی عوام پر آزمائے چلے جارہے ہیں ، عوام کو آزادانہ حق رائے دہی دیا جارہا ہے نہ ہی عوام کے فیصلے کا انتظار کیا جارہا ہے ، ایک کے بعد ایک لاڈلا عوام پر مسلط کیا جارہا ہے ، یہ لاڈلے کا کھیل کب تک ایسے ہی چلتا رہے گا ، عوام کب تک نااہل لاڈلوں کو سزا کے طور پر بھگتے رہیں گے ، عوام کی آزمائش اب ختم ہو جانی چاہئے ، عوام کو آزادانہ شفاف انتخاب کا نہ صرف موقع ملناچاہئے ،بلکہ عوام کے ہی فیصلے پر منوعن عمل بھی ہو نا چاہئے، اس سے ہی جمہورکو اعتماد ملالے گا اور اس سے ہی جمہوری نظام مضبوط ہو گا۔
اس جمہوری نظام کومضبوط اور ملک کو درست سمت میں ڈالنے کے لئے رہنمائی آئین و قانون سے ہی ملے گی اور وہیں سے لینی بھی چاہئے، لیکن ایسا کچھ بھی عملی طور پر ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،ہمارے اہل سیاست اپنے مفادات کی تکمیل میںہر جائز و ناجائز کرنے پر ہی تلے دکھائی دیتے ہیں ، یہ حصول اقتدار کیلئے جہاں غیر سیاسی قوتوں کے دست شفقت کے متلاشی ہیں ،وہیں آئین و قانون کی خلاف ورزیاں بھی بے دریغ کیے جارہے ہیں، انہیں کوئی روک رہا ہے نہ ٹوک رہا ہے ، یہ اختیار کر دہ راستہ بھلائی کے بجائے کھائی کی طرف لے جارہا ہے، لیکن ہماری ساری ہی قیادت کھائی کا ہی راستہ اختیار کرنے پر بضد ہے،اس راستے پر خود تو مریں گے ،عوام کو بھی ماریں گے ،ان کا ارادہ ایسا ہی لگتا ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے!

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button