جانشینوں کی تخت نشینی

پاکستان میں غیرجانبدار،صاف ،شفاف انتخابات ہمیشہ ایک خواب رہاہے ووٹ سرمد کو پڑتے ہیں جیت سکندر جاتے ہے یہی پاکستان کی سیاست کاالمیہ ہے اسی لئے،صاف ،شفاف انتخابات بیشتر سیاستدانوں کو ڈارئونا خواب لگتاہے ۔ذرا گنتی کریں اس ملک میں اشرافیہ کی تعداد ہزاروں سے تجاوز نہیں کرسکتی لیکن عام آدمی کروڑوںمیں ہیں جن کا خیال ہے ملک میں جاری سیاسی بحران مزید سنگین ہونے سے جمہوریت کو لاحق خطرات میں اضافہ ہواہے جس سے یقینامحب ِ وطن شہریوں میں تشویش کی لہردوڑ چکی ہے حالانکہ8فروری کو عام انتخابات کا اعلان بھی ہوچکا ہے لیکن حقیقت میںجب تک شیڈول کا اعلان نہیں ہوتا ملکی سیاست پر دھند چھائی رہے گی اس اعلان کے باوجود لوگوںکو اس الیکشن کے انعقادکایقین نہیں ۔
چلو فرض بھی کرلیں کہ 8فروری کو عام انتخابات ہو جاتے ہیں لیکن اس کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ منصفانہ الیکشن ہوں گے ؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔بہرحال الیکشن کمیشن نے حتمی حلقہ بندیوں کی فہرست شائع کردی، قومی اسمبلی 326 ارکان پر مشتمل ہوگی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا ہر شخص جانتاہے کہ الیکشن 2024ء میں کوئی بھی سیاسی جماعت 172 نشستوں کے ساتھ پارلیمان میں نہیں ا ٓ سکتی اس کا صاف صاف مطلب ہے کہ اگلی حکومت بھی مخلوط بنے گی یعنی چوں چاں کا مربہ ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے 266 حلقے ہوں گے، جبکہ کل نشستوں کی تعداد 326 ہوگی جن میں خواتین کی 60 مخصوص نشستیں شامل ہیں۔
پنجاب سے قومی اسمبلی میں خواتین کی 32 مخصوص نشستیں، سندھ سے 14، خیبرپختونخوا سے 10 اور بلوچستان سے خواتین کی 4 مخصوص نشستیں ہوں گی۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں کے 593 حلقے ہوں گے اسلام آباد کی قومی اسمبلی کی 3 جنرل نشستیں ہوں گی جبکہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141 اور صوبائی اسمبلی کی 297 جنرل نشستیں ہوں گی۔ سندھ میں قومی اسمبلی کی 61 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 130 جنرل نشستیں ہوں گی خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی 45 اور صوبائی اسمبلی کی 115 جنرل نشستیں ہوں گی بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16 اور صوبائی اسمبلی کی 51 جنرل نشستیں ہوں گی۔ الیکشن کمیشن کی اس ایفی شنسی کے باوجود ملک میں سیاسی بحران مزید سنگین ہونے سے گومگو کی کیفیت ہے۔
لگتاہے سیاستدانوںکو حالات کی سنگینی کااحساس تک نہیں اسی تناظرمیں اپوزیشن جماعتوںکاالزام ہے کہ الیکشن ملتوی کرنے کے لئے حیلے بہانے تلاش کئے جا رہے تھے یا پھر سیاسی مخالفین کو دیوارسے لگانے کی سازش ہورہی ہے ا س کی آڑمیں آئین سے کھلواڑکیا جارہاہے آج کل یوں لگتاہے ہر شخص گرم ہے جیسے موسموں اور مزاجوںمیں گرمی بڑھ رہی ہے اسی طرح عدم برداشت سے سیاست کے مزاج بھی گرم ہوتے جارہے ہیں اس طرح تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی کے رہنما بھی کسی سے پیچھے نہیں وہ بھی ماحول گرم کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے حالانکہ یہ کام تو مولانا فضل الرحمن نے انپے ذمہ لے رکھاہے عوام نے تو پہلے ہی عدم برداشت کی حدیں کراس کرلی ہیں وہ ذرا ذرا سی بات پر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں جو سیاسی و قومی رہنمائوںکا مقصد آگ بچھانا ہوتا تھا وہ جلتی پر تیل ڈالنے میں مصروف ہیں۔
ماضی کے حریف آصف زرداری اور میاںنوازشریف کی عوام کو کچھ سمجھ نہیں آتی نہ جانے کب حلیف بن جاتے ہیں نہ جانے کیوں حریف بہرحال آج کل ان دونوںکی جماعتوں نے ایک بارپھر آڈھا لگارکھا ہے عوام کی اکثریت نے اسے نورا کشتی خیال کرنے لگی ہے وزیر اعظم کی دوڑمیں شامل اپنے بلاول بھٹو زرداری روزانہ میاں نوازشریف کو کھری کھری سنارہے ہیں وہ یقینا سمجھتے ہیں کہ میاںنوازشریف ہی ان کی وزارت ِ عظمیٰ کی راہ میں رکاوٹ ہیں ایک بار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان میں الیکشنز کیسے ہوتے ہیں میں یہ جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ پاکستان کے عوام جب جاگ جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں رو ک سکتی۔
بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ 8 فروری کو الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے جو 3 دفعہ وزیراعظم بنے وہ چوتھی بار وزیراعظم بن کر ملک کو مشکلات سے نکالیں گے۔ دوسری طرف بتایا جا رہا ہے کہ چند سال قبل جس شخص نے وزیراعظم ہوتے ہوئے لاپتا افراد کے مسئلے کو نظر انداز کیا 70 سالہ نوجوانوں کا لیڈر یہی ملک کے اور عوام کے آپشنز ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرا یہ اعتراض نہیں کہ یہ بزرگ بن چکے ہیں عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ بزرگ ہو کر ایک نئی سیاست اور ایک نئی سمت اس ملک کو دے سکتے ہیں اور آپ نوجوان ہو کر بھی پرانی سیاست سے دلچپسی رکھ سکتے ہیں۔ موصوفنے کہا کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے عوام کا فیصلہ لے لیا ہے مگر آپ ان سب کو 8 فروری کو سرپرائز دیں۔ بڑی تعداد میں نکلیں اور اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ ملک کی قسمت ان 2 افراد کے حوالے نہ کریں جن کی پرانی طرز سیاست نفرت کی سیاست ، تقسیم کی سیاست مسائل کو نظر انداز کی سیاست اور وہ سیاست جس نے میرا اور آپ کا خون سستا کردیا ہے ان کو پھر سے موقع نہ دیں۔
پیپلزپارٹی کی تمام تنقیدکے جواب میں مسلم لیگ ن ’’چپ شاہ ‘‘ بنی ہوگی اس کے پیش ِ نظرایک ہی ایجنڈہ ہے اب کی بارکسی طرح بھی وزارت ِ عظمیٰ حاصل ہوجائے یہی ہدف میاںنوازشریف کے ساتھ ساتھ آصف علی زرداری کا بھی ہے کیونکہ دونوں عمرکے آخری حصے میں ہیں دونوں اپنی زندگی میں ہی اپنے اپنے جانشینوںکی تخت نشینی چاہتے ہیں اسی لئے آصف علی زرداری تو وزارت ِ عظمیٰ کے امیدوارنہیں بلاول بھٹوزرداری میدان میں اترے ہیں جن کے مدِ مقابل مریم نوازشریف ہیں۔
ان دونوںمیں سے ایک وزیرِ اعظم سلیکٹ ہوناہے حالات بتاتے ہیں کہ مریم نوازکے زیادہ چانسز ہیں جس کا کچھ کچھ ادراک بلاول بھٹو کوبھی ہوچلاہے اسی لئے وہ تلملاتے پھررہے ہیں اور جو آج حلق پھاڑکر وزیر ِ اعظم نوازشریف کے نعرے لگارہے ہیں وہ بھی دیکھیں گے کہ الیکشن سے پہلے یاالیکشن کے بعد میاںنوازشریف سیاست سے عملی طورپرمریم نوازکے حق میں دستبردارہوکرواپس لندن چلے جائیں گے لیکن ان دونوںکے عزائم کی راہ میں ایک رکاوٹ عمران خان کی صورت میں موجودہے جس کو آج دیوارسے لگاکر بے بس کردیاگیاہے9مئی کے بعد عمران خان کی پارٹی تتربترہوچکی ہے ان کے بڑے بڑے رہنما پریس کانفرنسیں کرکے عمران خان سے لاتعلقی کااظہارکرچکے ہیں۔
سینکڑوں ریاستی جبرکا شکارہیں،درجنوں نومولود تحریک استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیارکرچکے ہیں اس کے باوجودعمران خان PDMمیں شامل13جماعتی اتحاد،اداروں اور سیاسی مخالفیں کی سوچ پرحاوی ہے اسی لئے ہرقیمت پر عمران خان کاراستہ روکنے کیلئے مزید آپشنز اختیارکئے جاسکتے ہیں اگرواقعی 8 فروری کو الیکشن ہوگئے اور عوام کی خاموش اکثریت نے عمران خان کے حق میں فیصلہ دیدیا توپھرالیکشن تو’’ وڑ گیا نا‘‘ اس صورت ٍ حال میںمیاںنوازشریف اور آصف علی زرداری کی حکمت ٍ عملی کیا ہوگی وقت سے پہلے کچھ نہیں کہاجاسکتا پھر بھی ایک جماعت بانگ ِ دہل دعویٰ کررہی ہے کہ وزیر ِ اعظم ہمارا ہوگا اگر ان کی بات میں سچائی ہے تو پھر الیکشن کروانے کی کیا ضرورت ہے ۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button