انتخابی نشان اور مائنس عمران

اس وقت سیاسی منظر نامے پر زیر بحث موضوع عمران خان کا انٹرا پارٹی الیکشن سے دستبردار ہونا اور بیرسٹر گوہر علی خان بحیثیت اُمیدوار برائے چیئرمین پی ٹی آئی نامزدکیا جانا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی سربراہ کو پارٹی چیئرمین شپ سے دستبردار ہونے کی نوبت کیوں پیش آئی اور اسکی وجوہات کیا ہیں؟ سب سے بڑی وجہ جماعت کو اپنے ہر دلعزیز انتخابی نشان "بلا” کے چھن جانے کا خوف لاحق ہے۔ یاد رہے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے گذشتہ ہونے والے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج کالعدم قرار دیتے ہوئے جماعت سے 20 روز کے اندر دوبارہ انتخابات کروانے کا کہا اور خبردار کیا تھا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت جماعت سے بلے کا نشان واپس لے لیا جائے گا۔
بظاہر انتخابی نشان کا مقصد پولنگ ڈے پرووٹرز کے لئے انتخابی عمل میں اپنی پسند کے اُمیدوار کو چُننے میں رہنمائی فراہم کرنا ہےمگر پاکستان کی مروجہ سیاسی روایات میں انتخابی نشان کسی بھی اُمیدوار کی جیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی ، مسلم لیگ ن، جمعیت علماء اسلام، متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی جیسی بڑی سیاسی جماعتیں اپنے موجودہ انتخابی نشانات کے حصول کی خاطر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ہر حکم کی بجاآوری کے لئے تن من دھن کی بازی لگاتی دیکھائی دیتی ہیں۔ یاد رہے سیاسی جماعت کے لئے انتخابی نشان کے حصول کا طریقہ کار الیکشن ایکٹ ، 2017کے باب نمبر 12اور سیکشن 214تا 218میںمذکور ہے۔
جیسا کہ سیاسی جماعت کی الیکشن کمیشن سے رجسٹریشن، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لئے امیدواروں کا انتخاب کرنا، انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی فنڈز کے ذرائع کے بارے میں الیکشن کمیشن کو معلومات فراہم کرنا لازم ہے بصورت دیگر مطلوبہ انتخابی نشان الاٹ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔اڈیالہ جیل میں قید پی ٹی آئی قائد عمران خان کو انٹرا پارٹی انتخابات سے دستبردار کیوں ہونا پڑ رہا ہے؟ اسکی بڑی وجہ ماہ اگست میں الیکشن کمیشن کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی عدالت سے تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کے بعد عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 63 (1) (h) اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 کے تحت پانچ سال کے لئے پارلیمانی سیاست سے نا اہل قرار دیا جانا ہے۔
باوجود اسکے کہ یہ سزا سلام آباد ہائیکورٹ سے معطل ہوچکی ہے مگر سزا کے برخلاف اپیل کی شنوائی تک سزا ختم تصور نہیں ہوگی۔یہ ماضی قریب ہی کی بات ہے جب محلاتی سازشیں عروج پر تھیں توسپریم کورٹ کی جانب سے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواست میں نواز شریف کو پارٹی صدارت سے نااہل قرار دینے کیساتھ ساتھ الیکشن کمیشن پاکستان نے سینیٹ انتخابات کے لیے نواز شریف کی جاری کردہ ٹکٹس کالعدم قرار دے دیں۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفرالحق کی جانب سے جاری ہونے والی نئی پارٹی ٹکٹ کو بھی مسترد کردیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) بطور سیاسی جماعت سینیٹ الیکشن سے باہر ہو گئی تاہم پارٹی کے امیدواروں کو آزار قرار دے دیا گیا۔ یاد رہے پانامہ لیکس اور الیکشن ایکٹ 2017بل کے خلاف متعدد سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کا رُ خ کیا اور نواز شریف کو وزارت عظمی سے ہٹوانے کے ساتھ ساتھ پارٹی صدارت سے بھی ہٹوا کر ہی دم لیا اور یہ حقیقت پر مبنی بات ہے کہ جسٹس ثاقب نثار المعروف بابا رحمتا کی عدالت کی جانب سے نواز شریف کو پارٹی صدارتی عہدہ سے ہٹائے جانے کا فیصلہ تحریک انصاف کے لئے گلے کی ہڈی ثابت ہوچکا ہے۔کیونکہنواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹاتے وقت سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63پر پورا اترنے والا ہی پارٹی صدر بن سکتا ہے۔
لہذا پی ٹی آئی انٹرا الیکشن میں عمران خان دوبارہ چیئرمین منتخب ہوبھی جائیں تو سپریم کورٹ کا نواز شریف کے خلاف سال 2018 کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا عمران خان کے خلاف اگست میں جاری فیصلہ کی بدولت انٹرا الیکشن کے نتائج اک مرتبہ پھر کالعدم قرار دے دیئے جائیں گے، پھر پی ٹی آئی کے لئے اپنا پسندیدہ انتخابی نشان بلے کا حصول نا ممکن ہوجائے گا۔ اور عین ویسی ہی صورتحال پیدا ہوجائے جیسی پیچیدگیاں فروری 2018میں مسلم لیگ ن کے لئے پیدا ہوئی تھیں، اور مسلم لیگ ن کے سینٹ کے امیدواران کو شیر کے نشان کے بغیر آزاد حیثیت سے سینٹ انتخابات لڑنا پڑے تھے۔
اسے مکافات عمل ہی کہا جاسکتا ہے کہ کل تک مسلم لیگ ن سےن، ش، ح، م نکالنے والی جماعت پی ٹی آئی کے اپنے بانی سربراہ کو پارٹی چیئرمین شپ ہی سے دستبردار ہونا پڑ رہا ہے۔ اور پارٹی کے لئے اس سے زیادہ اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ سال 2022میں شامل ہونے والے بیرسٹر گوہر کو پارٹی سربراہی سونپی جاری ہے عین اسی طرز پر جیسا کہ وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کو تقریبا چھ ماہ پہلے پارٹی میں شامل ہونے کے بعد پاکستان کے سب سےبڑے صوبہ پنجاب کا خادم اعلی بنادیا گیا تھا۔اور حکومت خاتمہ کے بعد وسیم اکرم پلس بھی رفو چکر ہوگئے۔ اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چُرائی جاسکتی کہ بلے کے نشان کے حصول نے بظاہر پارٹی چیئرمین عمران خان کو مائنس کردیا ہے۔اب عمران خان کو بھی نواز شریف یا الطاف حسین کی طرز پر پس پردہ رہ کر پارٹی کو چلانا پڑے گا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button