روشن مستقبل کی جانب قدم !

پا کستان کے اندر اور باہر اب پا کستانی حکمرانوں اور پا لیسی سازوں کی ساری ہو شیاریاں عیاں ہو نے لگی ہیں ،عالمی بنک نے بھی پاکستانی حکمرانوں اور فیصلہ سازوںکے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کر تے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں فیصلوں کا محور ذاتی مفادات ہیں،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں پالیسیاں کون لوگ بناتے ہیں اور کون لوگ فیصلے کرتے ہیں،یہ بات عالمی بنک بھی جانتا ہے اور یہ بات سن کر پالیسیاں بنانے والے بھی جان گئے ہوں گے کہ ان کے بارے میں عالمی مالیاتی ادارے کیا رائے رکھتے ہیں، اس صورتحال کے پیش نظراب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی عوام فیصلہ کرے کہ ماضی کے ان آزمائے نمونوں کو ہی برقرار رکھنا ہے یا ایک روشن مستقبل کی جانب مشکل اہم قدم اٹھانا ہے۔
اگر پا کستان نے واقعی آگے بڑھنا ہے تو اپنی سوچ کے محور کو بدلنا ہی ہو گا ، اب عوام کومزید زیادہ دیر تک بے وقوف بنایا جاسکتا ہے نہ ہی عالمی اداروں کو مصنوعی اعدادوشمار پیش کر کے بہلایا جاسکتا ہے ، گزرتے وقت کے ساتھ جہاں پا کستانی عوام باشعور ہوتے جارہے ہیں، وہاں عالمی ادارے بھی اپنے بیانات اور رپوٹس کے ذریعے آگاہی دیے رہے ہیں کہ اُن کے ہی نام پر کیسے عام عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے ، لمی بنک کے پالیسی نوٹ کے اجراء کی تقریب میں نائب صدر مارٹن ریزر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی ضرورت نہیں،لائن لاسز کم کئے جائیں اور یہ لائن لاسز کیا ہیں، اس بارے بھی عالمی بنک کو بخوبی علم ہے کہ سارے لائن لاسز نہیں ہیں، بلکہ بہت سے خاص لوگوں اور اداروں کو دی جانے والی بجلی کوبھی لائن لاسز قرار دے کر جان چھڑائی جارہی ہے۔
ہر دور اقتدار میں ایک ہی بات عوام کو سننے کو ملتی رہی ہے کہ ملک مشکلات کا شکار ہے ، ملک دیو الیہ ہو نے کے قر یب ہے ، ایک حکومت جاتے وقت کہتی ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیاہے ،تودوسری حکومت آتے وقت کہتی ہے کہ ملک کو ایک بار پھر دیوالیہ کر دیا گیا ہے ،اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف سے نہ صرف قر ضوں پر قرضے لینے کا کھیل شروع ہو جاتا ہے ،بلکہ آئی ایم ایف کی ہی آڑ میں عام عوام پر بوجھ در بوجھ بڑھایا جاتاہے ،عالمی مالیاتی ادارے عام آدمی پر بوجھ ڈالنے کی بات کرتے ہیں نہ ہی نئے ٹیکس لگانے پر زور دیتے ہیں ، عالمی ادارے اشرافیہ پر ہی ٹیکس لگانے کی بات کرتے ہیں اور اشرافیہ کو دی جانے والی سہولیات کے خاتمے پر ہی زور دیتے ہیں ، لیکن ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ ساز وں نے تو عام عوام کی زندگیاں ہی مشکلات سے دوچار کر نے کی قسم کھارکھی ہے ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ہمارے حکمران ملک وعوام کے نام عالمی مالیاتی اداروں سے قر ض پر قر ض لے کر ملک و عوام کو مقروض بنائے جارہے ہیں ،لیکن ملک و عوام پر کچھ بھی نہیں لگا رہے ہیں تو پھر سارا قر ض کہاں جارہا ہے اور کس پر لگایا جارہا ہے ،اس بارے کوئی پو جھنے والا ہے نہ کو ئی روکنے والا ہے ،کیو نکہ اس گندے حمام میں سب ہی مل کر نہا ئے جارہے ہیں، لیکن یہاں پر ایک سوال ذہن میں اُٹھتا ہے کہ اگر عالمی بنک، آئی ایم ایف پاکستان کے مسائل اور ان کو پیدا کرنے والوں سے اچھی طرح واقف ہیں تو ان ہی لوگوں کے ہاتھ میں اربوں ڈالر کیوں تھمادیتے ہیں؟ کیوں ایسی شرائط نہیں رکھی جاتی ہیں کہ جس سے عام لوگوں کا بھی فائدہ ہو جائے، ملک میںآزادانہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانے کی شرط پر امداد کیوں نہیں دی جاتی ہے ،لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا، کیو نکہ عالمی بنک، آئی ایم ایف اور دیگرعالمی ساہو کاروں کو پاکستان میں اپنے ہر کارے ہی درکار ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے عرصہ دراز سے ایسا ہی دوغلانہ کھیل کھیلے جارہے ہیں ، ایک طرف اپنے بیانات اور رپورٹس کے ذریعے عوام مخالف فیصلوں کی آگہی دیتے ہیں تو دوسری جانب عوام مخالف فیصلے کر نے والوں کی پشت پناہی بھی کرتے رہتے ہیں ،یہ جن مفاد پر ستوں کی نشاندہی کرتے ہیں ، ان مفاد پر ستوں کو ہی قرض پر قر ض بھی دیتے رہتے ہیں ، یہ قر ض نہ دینے کی ساری سختیاں اپنے مفادات کے حصول تک ہی رکھتے ہیں ،یہ پا کستان میں مفاد پر ستوں کا جاری کھیل چلتا رہنے دینا چاہتے ہیں،کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اگر عوام کے اصل نمائندے ایک بار آگئے تو وہ ان اداروں کا عمل دخل ہمیشہ کیلئے ملک میں بند کردیں گے، اس لیے انہیں ایسے ہی بدعنوان آزمائے لوگ ہی قابل قبول ہیں، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی عوام فیصلہ کرے کہ انہوں نے ماضی کے آزمائے نمونوں کو ہی برقرار رکھنا ہے یا ایک نئی منتخب عوامی قیادت کے ساتھ روشن مستقبل کی جانب مشکل اور اہم قدم اٹھانا ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button