آزمائے کو ہی آزمانا ہے !

پا کستانی سیاست میںآزمائے کو ہی اقتدار میں لانے کے تجربات ہوتے رہتے ہیں، اس مقصد کے لیے جہاں سیاست استعمال ہوتی ہے ،وہیں دیگر حربے بھی آزمائے جاتے ہیںایک طرف نجی زندگی کو تباہ کیا جاتا ہے،تو دوسری جانب کرپشن کو سامنے لایا جاتا ہے، اس کے ساتھ خلاف مقدمات بھی بنائے جاتے ہیں اور جس کو ہٹانا ہوتا ہے، اسے ہٹا دیا جاتا ہے،اس کے بعد جس کو لانا ہوتا ہے، اس کی لانڈرنگ کر کے لایا جاتاہے، اس قسم کی آجکل بھی ایک کوششیں ہورہی ہیں،آزمائے کو ہی آزمانے کی ضد پوری ہورہی ہے،لیکن اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلیں گے۔
ملک میں ایک طرف شفاف الیکشن کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب سلیکشن کی افواہیں بھی زر گر دش ہیں ، اگر آزمائے کو ہی آزمانے کیلئے انتخابات کا میدان صاف کیا جائے گا تو پھر شفا ف انتخابات کا تاثر کیسے قائم کیا جاسکے گا ،عوام کو ہی عوامی فیصلے کا یقین کیسے دلا یا جائے گا ؟عوام پہلے ہی بے یقینی کا شکار ہیں اور اپنی محرومیوں کا رونا رورہے ہیں ، اگر اس صورتحال میں آزمائے ٹولے کو ہی دوبارہ لایا جائے گا تو عوام کا حال بھی ایسا ہی رہے گا،بیروزگاری بڑھتی رہے گی اور مہنگائی قابو سے باہر ہی رہے گی، ہر درد کا علاج جب آئی ایم ایف سے ہی کریا جائے گا تومسائل کم ہو نے کے بجائے مزید بڑھیں گے۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ہر بار یقین دلایا جاتا ہے کہ غیر سیاسی قو تیں سیاست میں مداخلت نہیں کر یں گی اور ہر بارہی سیاست میں غیر سیاسی مد اخلت ہوتی رہی ہے ،اس بار بھی مداخلت ہورہی ہے ،اس کی ہر جانب سے تصدیق بھی ہورہی ہے ،اس حوالے سے حکومتی اقدامات اور عدالت کے حیرت انگیز واقعات سب نے ہی دیکھے ہیں ،مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا انداز گفتگو بھی سب کے سامنے ہے ، جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی کا کہنا ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں کہیں اور ہی دیکھ رہی ہیں،رضا ربانی نے سیاست میں مداخلت کے مرض کی اصل جانب توجہ دلائی ہے کہ سیاستدان شفاف نہیں رہے ہیں، انہوں نے سمجھوتا کرنا شروع کردیا ہے اور سمجھوتے کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے، اس کے نقصانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
اہل سیاست نے ہمیشہ سے ہی قومی نقصان سے زیادہ ذاتی مفادات سے غرض رکھی ہے اور اپنی ذات کیلئے ہی سمجھوتے کرتے رہے ہیں،لیکن اب اہل سیاست کو دیکھتے ہوئے عوام بھی سمجھوتہ کر نے کے عادی ہو نے لگے ہیں اور اپنے عارضی مفاد کے لیے قومی مفاد پر سمجھوتا کرنے لگے ہیں،اگرسیاسی جماعتیں اور لیڈر سمجھوتا کریں تو ایک بار خرابی ہوتی ہے، اگلی مرتبہ عوام انہیں ٹھیک کردیتے ہیں، لیکن اگر عوام ہی سمجھوتے کرنے لگیں تو پھر اس کی کوئی حد ہی نہیں رہتی ہے، عوام کو اہل سیاست کی پیروی کر نے کے بجائے ان کے خلاف مزحمت کر نا ہو گی اور سمجھوتے کی عادت ترک کر نا ہو گی ، تبھی اہل سیاست کی بھی سمت درست کی جاسکے گی ۔
اگر دیکھاجائے تو اہل سیاست اپنی سمت درست کرنا چاہتے ہیں نہ ہی اپنے روئیوں میں کو ئی تبدیلی لارہے ہیں ، یہ ایک بار پھر وہی اپنی پرانی سیاست کرر ہے ہیں ، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں کر رہے ہیں ، ایک دوسرے کو ہی مود الزام ٹہرارہے ہیں ، تحریک انصاف قیادت کے خلاف ایک ہونے والے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف بظاہر ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیںاورخوب شور مچا رہے ہیں، لیکن اندر سے ایک ہی ہیں ، بس عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے ،اس کے ساتھ ایک مردہ گھوڑے ایم کیو ایم میں بھی جان ڈالنے کی سرتوڑ کوشیں کی جارہی ہے اور ایک ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے یہ لوگ آئیںگئے تو کوئی انقلاب لے ائیں گے۔
اس ملک میں کوئی انقلاب آئے گا نہ ہی آزمائے کوئی انقلاب لاسکتے ہیں ،یہ سب پرانے ناکام پٹے ہوئے کھلاڑی ہیں ، یہ ایک بار نہیں ، بار بارپٹے اور برْی طرح ناکام رہے ہیں، انہوں مل کر بھی اپنے سولہ ماہ کے دور اقتدار میں جو کچھ ملک کے ساتھ کیا ہے ، اس کے بارے انہیں لانے والے بخوبی جانتے ہیں ،اس کے باوجود بضد ہیں کہ آزمائے کوہی آزمانا ہے اور انہیں ہی لانا ہے تو ان کی مرضی ہے ،ضرور لائیں ،مگر یاد رکھیں کہ انہوں نے جو بڑی محنت و ریاضت سے ملک کو سیاسی ومعاشی دلدل سے نکالا ہے ،یہ آزمائے ہوئے ایک بار پھر اُسی دلدل میں دھکیل دیں گے، ایسے ہی آزمائے لوگوں کے بارے حدیث شریف میں کہا گیاہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار ڈسا نہیں جاتا ہے،لیکن معلوم نہیں یہ کیسے مومن ہیں کہ بار بار ڈسے جاتے ہیں، مگر باز ہی نہیں آتے ہیںاور آزمائے کو ہی آزمانے کی ضد کرتے ہیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button