گرین پا کستان ہی فضائی آلودگی سے بچاسکتا ہے !
پا کستان میں ہر مسئلے کا حل ہی پابندیاں لگا کر نکلاجاتا ہے،فائرنگ کا واقعہ ہوجائے تو موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پرپابندی لگادی جاتی ہے،اگر کسی علاقے میں سوزوکی میں دھماکہ ہوجائے تو ملک بھر کی سوزوکیاں ضبط کرنا شروع کر دی جاتی ہیں، کورونا جیسی وبا کا حل بھی پابندیوںسے ہی ڈھونڈا جاتارہا ہے اور اب ملک بھر میں فضائی آلودگی اور سموک کی روک تھام کے لیے بھی لاک ڈائون کا ہی سہارا لیا جارہا ہے ،اس میں اسمارٹ کی ایک نئی اصطلاح کا اضافہ کیا گیا ہے ،تاکہ پڑھنے اور سننے والے کو بھلا لگے ، اس لاک ڈائون اور سمارٹ لاک ڈائون سے دھواں اور دھند تو کم نہیں ہو گی ،البتہ اس سے تعلیم اور کاروبار کا نقصان ضرور ہو گا۔
پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک نہیں ہے کہ جہاں پر فضائی آلودگی اور اسموگ بڑھ رہی ہے ، امر یکہ سے لے کر چین تک سارے ہی ممالک فضائی آلودگی سے دوچار رہے ہیں ،لیکن انہوں نے فضائی آلودگی پر قابو پانے کے واضح پلان بنائے اور اس پلان پر عمل در آمد کرتے ہوئے فضائی آلودگی پر قابو پارہے ہیں ،وہاں پر کہیں لاک دائون کیا گیا نہ ہی کاروبار ی و تعلیم ادارے بند کیے گئے ہیں ، وہ ممالک طویل المیعاد منصوبہ بندی کے تحت فضائی آلودگی پر قابو پایارہے ہیں،،جبکہ ہمارے ہاں الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے، ہم فضائی آلودگی کے اسباب کا تدارک کر نے کے بجائے لاک ڈائون اور سمارٹ لاک دائو ن جیسے نمائشی اقدامات کرنے میں ہی لگے ہوئے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ہمارے حکمران فضائی آلودگی کے سد باب کیلئے کوئی طویلیل المیعاد منصوبہ بندی کررہے ہیں نہ ہی اس کے اسباب کی روک تھام کیلئے کوئی اقدامات کررہے ہیں ، فضائی آلودگی کے اسباب میں 40 فیصد حصہ ان ناقص اور غیر معیاری ڈیزل گاڑیوں کا ہے کہ جن کا زہریلا دھواں اسموگ کا سبب بھی بنتا ہے ، اس کے علاوہ بہت سی ایسی فیکٹریاں کوالٹی کنٹرول کے بغیر ہی چل رہی ہیں، ان کا دھواں اسموگ کا سبب بن رہا ہے،تیسرے نمبر پر اینٹوں کے ایسے بھٹے ہیں، جو کہ جدید ٹیکنالوجی کے بجائے قدیم ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں اور انکی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی کا سبب بنتا ہے،چوتھے نمبر پر فصلوں کی باقیات کے جلانے سے فضائی آلودگی میں بے انتہا اضافہ ہورہا ہے۔
یہ عوامل سب ہی جانتے ہیں، اس کے باوجودہمارے ارباب اختیار کوئی منصوبہ سازی کررہے ہیں نہ ہی اسباب کی روک تھام کا کوئی بند وبست کررہے ہیں، ملک بھر میں گاڑیوں کی مناسب چیکنگ کا کوئی بندوبست ہے نہ ہی بھٹے اور فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں کنٹرول کیا جارہا ہے ،فصلوں کی باقیات پر پابندی عائد کر نے کے باوجود جلائی جارہی ہیں، لیکن کوئی روک رہا ہے نہ ہی قانون کی عمل داری کہیں دکھائی دیتی ہے ،کیو نکہ ادارے اور انتظامیہ کی اشیر باد سے ہی قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے ،اس ملی بھگت کا ہی نتیجہ ہے کہ فضائی آلودگی میں کمی ہونے کے بجائے دن بدن مزید اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
اس وقت فضائی آلودگی اور سموک پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے، یونیورسٹی آف شکاگو کی ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہوا کی آلودگی کے سبب سالانہ ایک لاکھ 35ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں،جبکہ اسموگ کی وجہ سے سانس، ڈسٹ الرجی اور دل کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، پا کستان کا شہر لاہور اوکراچی کبھی اپنی خو بصورتی اور اچھی آب ہوا کی وجہ سے مشہور ہے ، لیکن اب دنیا بھر میں فضائی آلودگی میں پہلے اور دوسرے نمبر پر رہتے ہیں،اس وقت لاہوراور کراچی کی موجودہ فضا میں کوئی صحتمند شخص سانس لے رہاہے تو 300 سگریٹس کے برابر دھواں اپنے پھیپھڑوں میں اُتار رہا ہے ،لیکن اس سنگین مسئلے سے نپٹنے کیلئے ہماری افسر شاہی اور حکمرانوں کے پاس کوئی پلان ہے نہ ہی کوئی پلان بنانے کی جستجو پائی جاتی ہے، اگر کوئی پھٹا پرانا پلان فائلوں میں پڑا بھی ہے تو اُسے دیکھنے کی بھی کوئی زحمت نہیں کررہا ہے۔
یہ ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ ہر دور حکومت میںہمارے حکمران ہر معاملے پر ہی ڈنگ ٹپائو پروگرام پر عمل پیراں رہتے ہیں ، اس وقت فضائی آلودگی کے معاملے پر بھی ڈنگ ٹپائو پر وگرام پرہی عمل کیا جارہا ہے ، ہمارے ار باب اختیار کاسارا زور ہی تعلیمی ادارے اور کاروبار بند کرنے پرلگ رہاہے ،فضائی آلودگی کے سد باب کیلئے لاک ڈائون کی نہیں ، خلاف ورزی کرنے والوں کو لاک آپ کر نے کی ضرورت ہے ، ہمارے ار باب اختیارہوش کے ناخن لیں ،تعلیم دشمن اورکاروباری دشمن رویہ ترک کریں ، اگر اس اہم مسئلے پرواقعی قابو پانا ہے تو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ جس سے فضائی آلودگی میں واقعی کمی لائی جاسکے ، محض نمائشی اقدامات سے کچھ ہو نے والا نہیں ہے، اس کیلئے جہاں فضائی آلودگی پیدا کر نے والے اسباب کا سد باب کر نا ہو گا ،وہیںشجرکاری کے رجحان میں اضافہ بھی کرنا ہو گا اور یہ شجرکاری مہم صرف حکومت کی فائلوں کی حدتک محدود نہیں ہونی چاہئے ، بلکہ گراٗونڈ پر نظر بھی آنی چاہئے ، کیو نکہ ہمیں اب ایک گرین پا کستان ہی فضائی آلودگی سے بچا سکتا ہے۔