وقت بدل چکا ہے !

ملکی سیاست کے حالات دن بدن بدلتے جارہے ہیں ، ایک طرف مسلم لیگ (ن ) اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آنے کی دعوئیدار ہیں تو دوسری جانب تحریک انصاف تتربتر ہی دیکھائی دیتی ہے، اس کے کوئی دو ڈھائی سو سابق ممبرانِ اسمبلی اور رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور کئی انڈر گرائونڈ چلے گئے ہیں ، جبکہ چیئر مین پی ٹی آئی کی جیل سے رہائی ہوتی بھی نظر نہیں آرہی ہے،اس سے تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ انتخابات میںتحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہی ر ہے ،تاہم تحریک انصاف کو اب بھی یقین ہے کہ اگر بلے کے نشان پر انتخابات لڑنے کی اجازت دیے دی گئی تو عمران خان چاہئے جیل میں رہیں یا نااہل کر دیئے جائیںتو بھی آئندہ انتخابات وہی جیتیں گے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی ہے ، اگر آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کو اجازت ملتی ہے اور انتخابات آزادانہ شفاف کرائے جاتے ہیں تو مسلم لیگ( ن )اور پیپلز پارٹی کبھی جیت نہیں پائے گی ،اس لیے سارے ہی حربے آزمائے جارہے ہیں ، سارے ہی الزمات لگائے جارہے ہیں، ایک طرف پی ٹی آئی قیادت کو پابند سلاسل کیا جارہا ہے تو دوسری جانب کار کنان کوخوف و ہراساں کیا جارہا ہے ، اس پر بھی بات نہیں بنتی نظر نہیں آئی تو کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی ہے ، لیکن یہ مہم بھی کا میاب ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی مخالف گھبرا ہٹ میں ایک کے بعد ایک غلطیاں ہی کرتے جارہے ہیں ، پی ٹی آئی قیادت اپنے دور اقتدار میں اتنی مقبول نہیں تھے ،جتناکہ اقیدار سے نکالے جانے کے بعد مقبول ہوئے ہیں ، پی ٹی آئی کار کنان بھی اتنے زیادہ جانثار نہیں تھے ،جتناکہ انتقامی سیاست کا شکار ہو نے کے بعد ہو گئے ہیں ، اس وقت پی ٹی آئی قیادت کا اپنے کارکنان سے پیر و مر شد والا تعلق بن چکا ہے ، وہ اپنے لیڈر کے خلاف کچھ بھی سننے ، ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں ، مسلم لیگ (ن )قیادت پی ٹی آئی قیادت مخالف کوئی بیانیہ لے آئے یا کردار کشی مہم چلا ئے ، کوئی بیانیہ چلے گا نہ ہی کوئی مہم کا میاب ہوگی ،کیو نکہ عوام آزمائے سارے ہی حربوں سے بے زار ہو چکے ہیں ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ اہل سیاست نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ہے ، ایک بار پھر وہی آزمائے پرانے ہی حربے آزمائے جارہے ہیں، ایک بار پھر وہی پرانی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں، ایک بار پھر خاور مانیکا اور ہاجرہ خان جیسے کردار سامنے لائے جارہے ہیں ،اس سے کیا ہو گا، اس سے پہلے کوئی فرق پڑا ہے نہ ہی آئند کوئی فرق پڑتا دکھائی دیے رہا ہے، خاور مانکا سے جتنے مرضی وار کروالیں اور ہاجرہ خان ، ریحان خان سے جتنے مرضی الزامات لگوالیں ، پی ٹی آئی فالورز کو کوئی پرواہ ہے نہ ہی ان لزامات کو تسلیم کریں گے ، کیو نکہ اُ ن کی نظر میں عمران خان ایک سیاستدان سے بہت آگے نکل چکے ہیں ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ساری ہی سیاسی جماعتوں کے کار کنان اپنی قیادت کی اندھی تقلید کرتے ہیں ،جبکہ پی ٹی آئی کار کنان کچھ زیادہ ہی آگے بڑھتے ہوئے عقیدت کر نے لگے ہیں ،اس عقیدت کو اب کسی صورت بھی بدلا نہیں جاسکتا ہے ، اس لیے اہل سیاست کے ساتھ فیصلہ سازوں کو بھی سو چنا ہو گا ، اس وقت کے حالات حاضرہ کا جائزہ لینا ہو گا اور پرانے آزمائے حربوں کو آزمانے سے اجتناب کرناہو گا ،الیکشن کے نام پر سلیکشن کی رویت کو ترک کر نا ہو گا اور عوام کو ہی فیصلے کا اختیار دینا ہو گا ، عوام جو بھی فیصلہ کریں نہ صرف سب کو ہی ماننا ہو گا ،بلکہ آئند منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کر نے کا موقع بھی دینا ہو گا ، اگر اس بار بھی عوام کی مر ضی کے خلاف بند کمروں کے فیصلوں کو ہی مسلط کر نے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج اچھے نکلیں گے نہ ہی عوام مخالف فیصلہ قبول کیا جائے گا ۔
اس بار کوئی مانے نہ مانے وقت بدل چکا ہے ، عوام اب آزمائے وعدئوں ، دعوئوں کے بہلائوئے میں آنے والے ہیں نہ کسی نئے بیانیہ کے بہکائوئے میں آئیں گے نہ ہی کوئی ڈیل یا ڈھیل مانیں گے، عوام حق رائے دہی کے منتظرہیں ، آٹھ فروری انتخابات کا دن زیادور نہیں رہا ہے ،اگر اس دن عوام نے چند ہزار روپوں، بریانی کے ڈبے، قیمے کے نان کو چھوڑ کر اپنے بہتر مستقبل کے لئے ووٹ ڈال دیے تو آزمائے کے ساتھ فیصلہ سازوں کو بھی بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اب وقت واقعی بدل چکا ہے اور اب عوام ہی فیصلہ کریں گے اور عوام کا ہی فیصلہ سب کو مانا پڑے گا ۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button