اندھیرے چھٹ ہی جائیں گے !

ہماری سیاست ایک گول دائرے میں ہی گھومتے ہوئے تنزل پذیری کا شکار ہوتی جارہی ہے ، اس تنزلی سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ایک نیا میثاق جمہوریت کیا جائے،لیکن ماضی میں میثاق جمہوریت کا تجر بہ کچھ اچھا نہیں رہا ہے ، اس میثاق جمہوریت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے طے کیا تھا کہ مقتدرہ کی مدد سے اقتدار میں آئیں گے نہ ہی کسی جمہوری حکومت کو اقتدار سے نکالنے میں مددگار بنیں گے،اس میثاق جمہوریت میں نگران حکومت کی غیر جانبداری کے بارے میں بھی تحریر ہے کہ یہ نیوٹرل رہے گی اور اس کا کام آزاد اور منصفانہ الیکشن کرانا ہوگا، اس میثاق جمہوریت پر عمل در آمد تونہ ہوسکا، مگراس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتاہے کہ ایک ارتقا پذیر سیاسی عمل ہی پاکستان کو حقیقی جمہوریت اور ترقی کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔
ہر دور اقتدار میں اہل سیاست دعوئیدار رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت دلائیں گے ، ملک میںحقیقی جمہوریت لائیں گے اور ملک کو ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کر یں گے ، لیکن یہ دعوئے سارے کے سارے ہی دھرے رہ گئے ہیں ، یہ کبھی پورے ہو پائے نہ ہی پورے کر نے کی کوشش کی جارہی ہے ،ایک بار پھر وہی پرانے دعوئے دہرائے جارہے ہیں ،ایک بار پھر عوام کو یقین دلایا جارہا ہے کہ سب کچھ بہت جلد ہی بدل جائے گا ،لیکن یہ تبھی ممکن ہو گا کہ جب انتقامی سیاست کا دروازہ بند کیا جائے گا اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرکے انتخابات کیلئے لیول پلینگ فیلڈ مہیا کی جائے گی،اس کے بعد ہی ایک نئے میثاق جمہوریت کی راہ ہموار ہو پائے گی اور ملک کو ایک ترقی یافتہ ، جمہوری ، فلاحی اور سماجی انصاف پر مبنی راستے پر ڈالا جا سکے گا۔
یہ بات اہل سیاست بھی مانتے ہیں کہ جمہوریت کے فروغ میں ہی سب کی بقاء ہے ،لیکن بات جب اقتدار کی آتی ہے توسب کچھ ہی فراموش کر دیاجاتاہے ،یہ حصول اقتدار میں عوام کی جانب دیکھنے کے بجائے مقتدرہ کی جانب دیکھنے لگتے ہیں اور انہیں سیاست میں مداخلت کی دعوت دیتے ہیں ، یہ ایک طرف خود ہی غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کی دعوت دیتے ہیں تو دوسری جانب خودہی واویلا کرنے لگتے ہیں ،اس واویلے کے دوران ڈیل اور ڈھیل کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے ، یہ اہل سیاست کے قول فعل کا تذاد ہے کہ آج بھی سیاسی ادارے کمزور ہیں اور جمہوریت کا پودا ناتواں دکھائی دیتاہے، یہ جمہوریت کا ناتواں پوداجمہوریت کے تسلسل سے ہی تواناں ہو سکتا ہے ، لیکن جمہوریت کے علمبردار ہی جمہوریت کا تسلسل روکنے کے ذمہ دار دکھائی دیتے ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ جمہوری عمل کے تسلسل اور اس کی پختگی کے بغیر پاکستان کے وفاق کی سلامتی اور اس کی خوشحالی ممکن نہیں ہے،یہ بات اہل سیاست کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تاریخ کے کٹہرے میں انہیں ہی کھڑا ہونا ہے اور انہیں ہی عوام کے سامنے جوابدہ ہو نا ہے ،اہل سیاست کب تک عوام کی عدالت سے بھاگتے رہیں گے ،کب تک عوام کا سامنا کر نے سے کتراتے رہیںگے اور کب تک مقتدر قوتوں کے ذریعے عوام پر مسلط ہوتے رہیں گے ،انہیں ایک نہ ایک دن عوام کا سامنا کر نا ہی پڑے گا ، عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر جوابدہ ہوناہی پڑے گا، یہ عوام کی عدالت میں کبھی سر خرو نہیں ہو پائیں گے ،جب تک کہ عوام کوفیصلہ سازی میں شامل نہیں کر یں گے ، عوام کے فیصلوں کو نہیں مانیں گے ، یہ عوام کے فیصلے مان کر ہی عوام کی عدالت میں سر خرو ہو پائیں گے۔
اس ملک میں اب تک جتنا کچھ ہو چکا ہے، اس کے بعد مزیدایسا ہی کچھ ہونے کی گنجائش نہیں رہی ہے،اہل سیاست کو جہاں اپنی سمت درست کرنا ہے ،وہیں غیر سیا سی قوتوں کو بھی اپنے روئیوں پر نظر ثانی کر نا ہے ، اس کیلئے مل بیٹھ کر کوئی نیا میثاق کر نا ہی پڑے گا،ایک ایسا میثاق کر نا پڑے گا کہ جس پر اتفاق رائے سے عمل درآمد بھی ہو تارہے ، اس کے بغیر کوئی چارہ ہے نہ ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے ،ایک نئے میثاق کے بغیر انتخابات اور انتخابات کے بعدآزمائے ہوئے لوگوں کی قومی حکومت چلے گی نہ ہی ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لایا جاسکے گا، یہ مختلف اہداف حاصل کر نے کیلئے آزمائے ٹوٹکے آزمانے کی ضد اب چھوڑ دینی چاہئے ، پاکستانی قوم بار ہا آزمائے تجربات سے تنگ آچکی ہے ، اس کے باوجود اتنی ہمت والی ہے کہ نہ صرف ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کررہی ہے،بلکہ پرُاُمید بھی ہے کہ یہ اندھرے چھٹ ہی جائیں گے اوراُن کی زندگی میں تبدیلی کا سورج طلوع ہو کر ہی رہے گا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button