اسرائیل کے حامی ۔۔۔۔؟

غزہ کی حالیہ جنگ بہت سوں کوبے نقاب بھی کررہی ہے اورحق وباطل کے درمیان فرق بھی واضح کررہی ہے۔یہ جنگ ہمیں یہ بھی بتارہی ہے کہ کون حق کے ساتھ کھڑاہے اورکون مظلوم کے مقابلے میں ظالم کاہمنواہے ؟اورکون سے بھیانک چہرے ہیں جواس مقدس خون کوبھی اپنی گندی سیاست اورسیاسی فائدے کے لیے استعمال کرناچاہتے ہیں ؟اورکون ہیں وہ جواسرائیل اوراس کے حامیوںکویہ جتلارہے ہیںکہ وہ ہی ان کے مفادکے (ایجنٹ)اصل محافظ ہیں ۔؟
چنددن قبل ایوان صدر نے صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی کاایک بیان جاری کیا جس کے مطابق انہوں نے فلسطینی ہم منصب محمود عباس کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کے دوران تنازع کا ایک ریاستی حل تجویز کیا ۔ جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی نے فلسطینی صدر سے کہا کہ اگر 2 ریاستی حل اسرائیل کے لیے قابل قبول نہیں ہے تو ایک ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے جہاں یہودی، مسلمان اور عیسائیوں کی اچھی خاصی تعداد مساوی سیاسی حقوق کے ساتھ رہ سکتی ہے۔تقریبا تمام نیوز ٹی وی چینلز نے صدر کا یہ بیان چلایا جسے پاکستان کے سرکاری خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی جاری کیا ۔
اس بیان کے بعدایک ہلچل مچ گئی ،سفارتکاراس بیان کی تصدیق کے لیے متحرک ہوگئے ۔مسلم ممالک کے حکمرانوں کے بھی کان کھڑے ہوگئے ،اسرائیل میں خوشی کے شادیانے بجناشروع ہوگئے کہ پاکستان نے فلسطین کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کردی ہے ، ،قومی سلامتی کے ادارے بھی حیران وپریشان ہوگئے کہ صدررمملکت نے یہ کیاستم ڈھادیا؟پاکستانی وزارت خارجہ میں حکام کی دوڑیں لگ گئیں۔وزارت خارجہ نے فوری طورپرتردیدی بیان صرف میڈیاکوہی جاری نہیں کیابلکہ تمام اسلامی ممالک کے وزارائے خارجہ کوبھی بھیجا کہ ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔
اس بیان کی گونج دوردورتک سنائی دی صدرصاحب کے اس متنازع بیان پرسینٹ اجلاس میں ہنگامہ ہواسینیٹررضاربانی نے صدرسے استعفی کامطالبہ کیاجس پرنگراں وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی نے وضاحت دی کہ صدر مملکت نے فلسطین کے ریاستی حل کے بیان سے متعلق ہم (وزارت خارجہ )سے مشاورت نہیں کی تھی۔سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے منصب پرفائزکس طرح اتنی بڑی غلطی کرسکتاہے ؟مگر صدرصاحب اوران کے ہمنوائوں نے اپنامقصدحاصل کرنے کے بعد ایوان صدر سے نظرثانی شدہ بیان جاری کیاکہ عارف علوی نے فلسطینی صدرمحمود عباس کو یقین دہانی کروائی کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
یہ بیان انجانے میں جاری نہیں ہوابلکہ پاکستان تحریک انصاف کی اسرائیل نوازی کی ایک طویل تاریخ ہے اورعارف علوی کایہ بیان بھی اسی سلسلے کی کی ایک کڑی ہے ۔یہ بیان تحریک انصاف کی پالیسی کاحصہ ہے کہ ڈیڑھ ماہ سے زائدعرصہ ہوچکاہے غزہ میں اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہاہے مسلمان تومسلمان کفاربھی اس بربریت پرچیخ اٹھے ہیں مگرعالم اسلام کے لیڈرعمران نیازی کااسرائیل کی مذمت میں ایک سطری بیان بھی جاری نہیں ہواحالانکہ وہ جیل میں بیٹھ کرکارکنوں کے ہدایات بھی دے رہے ہیں، رہنمائوں کی نامزدگیاں بھی کررہے ہیں ان کے وکلاء ،اہلیہ اوربہنیں آئے روز ان سے ملاقاتیں بھی کرتی ہیں مگرکسی ایک نے بھی جیل سے باہرآکریہ نہیںکہاکہ عمران نیازی نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے ۔
تحریک انصاف کایہ وطیرہ رہاہے کہ وہ ایسے حساس ایشوزپرریاست کی پالیسی سے ہٹ کربیانات دے کراپنے بین الاقوامی ہمنوائوں کو یہ جتلاتے ہیں کہ وہ ہی ان کے مذموم ایجنڈے کوپوراکرسکتے ہیں ۔یہ بیان بھی اسی پالیسی کاحصہ ہے جس طرح عمران نیازی نے اقتدارسے قبل تقسیم کشمیرکافارمولہ پیش کیاتھا اوربعدازاں اقتدارملنے کے بعدمقبوضہ کشمیرانڈیاکی جھولی میں ڈال کرپانچ منٹ کے احتجاج کاڈھونگ رچایا ۔
پاکستان تحریک انصاف کامسئلہ اسرائیل نہیں اقتدارہے وہ اقتدارکے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ امریکی سفیراگرنوازشریف سے ملاقات کرے تووہ فوربیان جاری کرتے ہیں مگربرطانوی سفیرنوازشریف سے ملاقات کرے توپی ٹی آئی خاموشی اختیارکرلیتی ہے کیوں کہ (یہودی )سسرال ناراض ہوجائے گا ۔اسی طرح صدر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے گیارہ اراکین کانگریس(جس میں یہودی ارکان بطورخاص شامل ہیں) خط لکھیںکہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ہونے والی انکوائری تک اس کی سکیورٹی امداد معطل کردی جائے اس خط میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی زد میں آنے والوں میں عمران خان کا نام بطور خاص شامل ہے مگرپی ٹی آئی اس حوالے سے کوئی بات نہیں کرتی اورنہ ہی امریکہ سے احتجاج کرتی ہے ۔
پی ٹی آئی اسرائیل کے خلاف احتجاج کیوں کرکرے گی ان کاآپس میں چولی دامن کاساتھ ہے ۔دونوںایک دوسرے کے حق میں آوازاوراقدامات اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس سال جولائی میں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ہونے والے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے 53 ویں اجلاس میں اسرائیل کی نائب مستقل مندوب آدی فرزون نے پی ٹی آئی کے حق میں آوازاٹھاتے ہوئے کہاکہ اسرائیل کو پاکستان میں انسانی حقوق کی مجموعی صورت حال پرگہری تشویش ہے ،جہاں جبری گمشدگیاں، تشدد، پرامن احتجاج پرکریک ڈائون، مذہبی اقلیتوںو دیگر پسماندہ گروپوں کیخلاف تشدد جاری ہے۔
تحریک انصاف کی اسرائیل سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ،فارن فنڈنگ کیس میں یہ بات آشکارہوچکی ہے کہ پی ٹی آئی کواسرائیل سے بھی فنڈنگ کی گئی اورکئی یہودی مالی معاونت کرنے والوں میں شامل ہیں ۔یہ اسی محبت کانتیجہ ہے کہ اقتدارملنے کے بعدپی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی اسما حدید11نومبر2018کوقومی اسمبلی میں تقریرکرتے ہوئے کہاکہ یہودیوں کا قبلہ بیت المقدس ہے،مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہے، اس لیے اب مسلمانوں اور یہودیوں کی لڑائی اس معاملے پر توختم ہوجانی چاہیے۔نبی پاک نے یہودیوں کے ساتھ کام کرکے ایک مثال قائم کردی ہے۔
یہ اسرائیل سے محبت کاہی نتیجہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عمران نیازی کی حکومت نے کراچی میں مقیم ایک31سالہ یہودی فشیل بن خالدکوپاسپورٹ جاری کیااوربعدزاں اسے اسرائیل کے سفرکی اجازت بھی دی گئی،جنوری2019میں دی نیوز میں سینئرصحافی عمر چیمہ نے یہ رپورٹ شائع کی جس میں انہوں نے لکھا کہ عمران نیازی نے اس اجازت واقدام کی تشہیر کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔
یہ اسرائیل سے محبت ہی ہے کہ اسرائیلی اخبار اسرائیل ہایوم جواسرائیل کاسب سے بڑااخبارہے اورعبرانی زبان میں شائع ہوتاہے اس نے جون 2021میں یہ دعوی کیا کہ وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی(زلفی بخاری) نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیااور نومبر 2020میں اس نے تل ابیب ایئرپورٹ پر اسرائیلی حکام سے ملاقات کی تھی۔بعدازاں برطانوی پاسپورٹ رکھنے والے مشیر کو اسرائیل کی وزارت خارجہ لے جایا گیا جہاں انھوں نے متعدد سیاسی عہدیداران اور سفارت کاروں سے ملاقات کی اور پاکستان کے وزیر اعظم کا پیغام پہنچایا۔اس کے علاوہ اکتوبر2018میں جب پاکستان نے بھارتی طیارے کومارگرایااوراس کے پائلٹ ابھی نندن کوگرفتارکیاتواس وقت بھی ایک اسرائیلی طیارے کی پاکستان آمدکی بازگشت سنی گئی تھی ۔
اسرائیل کی حمایت میں پی ٹی آئی کسی بھی حدتک جاسکتی ہے کہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مولانامحمدخان شیرانی نے دسمبر2020میں ایک انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے(واضح رہے کہ اس بیان کے بعد مولانافضل الرحمن نے انہیں جمعیت علماء اسلام سے فورابے دخل کردیامگرپی ٹی آئی نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر مولاناشیرانی کو اپنااتحادی بنالیا)۔مولاناشیرانی اس وقت بھی اپنے مئوقف پرقائم ہیں اوروہ بدستورپی ٹی آئی کے اتحادی بھی ہیں ۔
یہ پی ٹی آئی کی اسرائیل سے محبت ہی تھی کہ ملکی تاریخ میں یہ بھی پہلی مرتبہ ہواکہ 2019میں ایک پاکستانی خلیل الرحمن کانام تبدیل کرکے ڈیوڈآریل David Ariel (یہودی نام )سے نادرا نے شناختی کارڈ جاری کیاخلیل الرحمن یہودیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان اسرائیل الائنس کے بانی رکن ہیں۔ اسی خلیل الرحمن نے اپریل 2020میں نیشنل پریس کلب کے سامنے اسرائیلی جھنڈے کے ساتھ دوہفتے احتجاجی کیمپ لگائے رکھا جس میں اس کامطالبہ تھا کہ پاکستانی پاسپورٹ سے اسرائیل کے خلاف نفرت آمیزالفاظ ختم کیے جائیں تاکہ پاکستانی بآسانی اسرائیل جاسکیںمگرعمرانی حکومت نے اس احتجاجی کیمپ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جب کچھ نوجوانوں نے اس کیمپ کوزبردستی اکھاڑاتوپولیس متحرک ہوئی ۔
یہودیوں سے محبت پی ٹی آئی کی سرشت میں شامل ہے یہ اسی کانتیجہ تھا کہ 2016میں لندن میئرکے الیکشن میں عمران خان نے مسلمان امیدوارصادق خان کے مقابلے میں زیگ گولڈسمتھ کی انتخابی مہم چلائی ؟زیک سمتھ ایک کٹریہودی اوراسرائیل کاسخت ترین حامی ہے ۔2019میں امریکی صدرسے عمران خان کی ملاقات میں بھی ٹرمپ کے یہودی دامادجارڈکشنرسے مددحاصل کی گئی ۔ اسی ٹرمپ اوراس کے یہودی دامادنے عربوں کورام کرتے ہوئے اسرائیل کوتسلیم کروانے کے لیے ابراہم اکارڈ کاوہ معاہدہ کیاجو اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کے درمیان اگست 2020 میں طے پایا ۔مگرعمران نیازی نے اس معاہدے کی مذمت تک نہیں کی بلکہ درپردہ اس معاہدے کوسپورٹ کیا۔
29مئی 2022کو امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے وفدکی اسرائیل کے دورہ کی خبرمنظرعام پرآئی تواس خبرکے بعدعمران نیازی نے کہاکہ ایک تصویرآئی ہے کہ ایک پاکستانی وفد پہلی بار اسرئیل گیا ہے، جس میں ایک پاکستانی ٹیلی ویژن میں کام کرنے والا تنخواہ دار بھی شامل ہے، اورحکومت اسرائیل کوتسلیم کرنے جارہی ہے ۔مگرعمران نیازی نے اس وقت یہ نہیں بتایاکہ اس صحافی کوپی ٹی وی میں کس کے دورمیں رکھاگیاتھا ؟اوراس وفدکوویزے کس کے دورمیں جاری کیے گئے تھے ؟پی ٹی آئی کچھ بھی کرلے اس کی اسرائیل سے محبت چھپی نہیں رہتی وہ ظاہرہوکررہتی ہے ۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button