عوام سرپرائز دیں گے!

ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی گہما گہمی شروع ہو جاتی ہے، سیاسی جماعتیں پوری تیاری سے میدان میں آجاتی ہیں ،مگر اس بار ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مقابلے کا سماں ہی نہیں بن رہاہے ، تحریک انصاف سوشل میڈیا حد تک محدودہے اور، پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی حد تک فعال ہے ،جبکہ مسلم لیگ (ن) میاں نوازشریف کی ذات میں ہی سمٹی ہوئی ہے،البتہ مسلم لیگ( ن) کے کچھ رہنما ء دعوئے کرتے ضرور دکھائی دیتے ہیں کہ پورے ملک سے بھاری اکثریت حاصل کریں گے،اس پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اگرانتخابی نتائج پہلے سے ہی طے ہیں تو پھر انتخابات کی زحمت ہی نہ کی جائے، ہم صرف عوام کا فیصلہ مانیں گے، کسی اور کا فیصلہ قبول نہیںکریں گے۔
یہ انتہائی افسوس ناک آمر ہے کہ انتخابات سے قبل ہی انتخابات کی شفافیت پر سوالات اُٹھنے لگے ہیں ، مسلم لیگ ( ن)قیادت کے علاوہ سارے ہی اپنے خد شات کا اظہار کررہے ہیں ، لیکن الیکشن کمیشن اور نگران حکومت ماسوائے یقین دھانیاں کرانے کے کچھ بھی نہیں کررہے ہیں ، یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ سیاسی جماعتوں کو جہاں انتخابات میں یکساں مواقع فراہم کرے ،وہیں ان کے سارے خدشات بھی دور کرے ،لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ہے ، الیکشن کے نام پر سلیکشن کے ذریعے عوام کی آنکھوں میں دھول جھو نکی جارہی ہے،اور اس میں اداروں کے ساتھ اہل سیاست کا بھی پورا ہاتھ ہے ،عوام کو سارے ہی مایوس کررہے ہیں۔
یہ عوام کی بڑی بد نصیبی رہی ہے کہ اس نے ہر ایک سے اُمید لگائی اور ہر ایک نے ہی عوام کو مایوس کیا ہے، ہر سیاسی جماعت کی سیاسی قیادت کے ساتھ ناکامی کی اَن گنت داستانیں وابستہ ہیں،ہر ایک نے اپنے دور میں عوام کو بے وقوف بنایا اور ملک کو دونوں ہاتھوںلوٹا ہے ، اس کے بعدنیب کو الزام دیتے ہیں، مگر نیب نے کرپشن کے مقدمات ہوا میں تو نہیں بنائے ہیں،یہ بات الگ ہے کہ اس نیب کو ہی کبھی کرپشن کے مقدمات بنانے کیلئے اور کبھی مقدمات سے دست بردار ہونے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے ، اس میں بھی اداروں کے ساتھ اہل سیاست ہی شریک کار رہے ہیں ، اہل سیاست کو جب بھی موقع ملتا ہے ، ڈیل اور ڈھیل کا کھیل کھلتے رہتے ہیں ، لیکن اس کھیل تماشے میں بے چارے عام عوام پس کررہ گئے ہیں۔
عوام کے پاس اپنی مایوسی کو اُمید میں بدلنے کیلئے کچھ بھی نہیں رہاہے،اس کے باوجود عوام کو بار بار بہلایا جارہا ہے ، بہکایا جارہا ہے کہ میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنیں گے تو سارے بحران دور ہو جائیں گے، خوشحالی کا دور دورہ ہو گا،اگرپہلے تین مرتبہ وزیراعظم بن کر میاں نواز شریف کچھ نہیں کر سکے تو چوتھی مرتبہ کیسے کریں گے ؟اس طرح ہی پیپلزپارٹی بھی تین باریاں لے چکی ہے،مگر تنزلی کے سفر روک نہیں پائی ہے،اس کے باوجود بلاول زرداری ایک موقع مانگ رہے ہیں ، بلاول بھٹو زرداری لاکھ کہیں کہ آسمان سے تارے توڑ لائیں گے، لیکن اْن کی باتیں عوام کے اندر موجود مایوسی کو اْمید میں نہیں بدل سکتی ہیں ، اس بار عوام دھوکہ کھانے کیلئے تیار ہیں نہ ہی آزمائے کو دوبارہ آمانا چاہتے ہیں ، عوام آزمائے سے جان چھرانا چاہتے ہیں ۔
اگر عوام آزمائے سے جان چھرانا چاہتے ہیںتو پھر ان پر زور زبر دستی آزمائے ہی کیوں مسلط کیے جارہے ہیں ؟ عوام بے چاروں کا کیا قصور ہے کہ دوسروں کا کیا ہی بھگتنا پڑرہا ہے ، اس آزمائش سے عوام کا نکلنا ضروری ہے ،مگر عوام کیلئے کون مسیحا بنے گا اوراس بھنور سے نکالے گا ، عوام کو دور دور تک کوئی دکھائی ہی نہیں دیے رہا ہے ، عوام نے غیر جانبدار شفاف انتخابات کی اُمید لگائی تھی ، وہ بھی ٹو ٹتی دکھائی دیتی ہے ،اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا بجا ہے کہ اگر انتخابات سے پہلے ہی انتخابی نتائج طے ہیں تو پھر ایسے انتخابات کی ضرورت ہی نہیں ہے، الیکشن کی آڑ لینے کے بجائے ویسے ہی سلیکشن کر دی جائے ، لیکن اس سلیکشن کو اپوزیشن مانے گی نہ ہی عوام قبول کریں گے۔
اس وقت سب سے زیادہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے کہ انتخابات کی شفافیت سے متعلق بڑھتے خدشات کے آگے بند ھ باندھے ،یہ انتخابی رولز میں ترامیم سے باندھا جاسکے گا نہ ہی پر سیاسی جماعتوں سے محض دکھائوئے کی مشاورت سے ممکن ہو گا ، اس کیلئے انتخابات میں یکساں مو اقع کے ساتھ انتخابی قوانین کی عمل داری کو بھی یقینی بنانا ہو گا ،تا کہ انتخابات پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ عوام کا اعتماد بھی بحال کیا جاسکے ، لیکن یہ تبھی ممکن ہو گا کہ جب انتخابات میںشفافیت اور غیر جانبداری حقیقت بن کر سامنے نظر آئے ، جو کہ ابھی تک نظر نہیں آر ہی ہے تو پھر عوام ہی کوئی سرپرائز دیں گے !

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button