مستقبل کے راستے کا انتخاب !

ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انتخابات جوں ہی قریب آرہے ہیں ،توں ہی خدشات بڑھتے جارہے ہیں کہ کیا الیکشن کمیشن شفاف غیر جانبدار الیکشن کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے ؟اس ضمن میں سابق صدر آصف زرداری نے نہایت اہم بنان دیا ہے کہ اس وقت ملک کا ماحول انتخابات کیلئے نہ صرف ساز گار ہے ،بلکہ ملک شفاف انتخابات کی طرف بھی جارہا ہے اور انہیں الیکشن کمیشن پر پورا اعتماد ہے کہ وہ شفاف الیکشن کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ملک میں شفاف انتخابات کے حوالے سے ایک طرف آصف علی زرداری کا بیان ہے تو دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے پر نہ صرف شکوئے شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں ،بلکہ بڑی مہارت سے سابقہ حکومت کی سولہ ماہ کی ناقص کار کردی کا سارا ملبہ بھی مسلم لیگ( ن ) قیادت پر ہی ڈالے جا رہے ہیں ،اس کے جواب میں سابق وزیر اعظم شہباز شر یف کا کہنا ہے کہ سارے فیصلے مشاورت سے ہوتے رہے ہیں اور ان فیصلوں کو بوجھ سب کو مل کر ہی اُٹھانا چاہئے ، لیکن پیپلز پارٹی قیادت وکٹ کے دونوجانب کھیلتے ہوئے الیکشن میں جانا چاہتے ہیں ، اس لیے ہی آصف علی زرداری مفاہمت اور بلاول بھٹو زرداری مزحمتی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
اس ملک کی سیاست میں ایسا سب کچھ پہلی بار نہیں ہورہا ہے ، اس سے قبل بھی ایسا ہی کچھ ہوتا رہا ہے اوراس بار بھی وہی کچھ ہورہا ہے ، ہر سیاسی جماعت کی قیادت اپنے مفاد کے پیش نظر وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں ، ایک طرف عوام کو بہلانے کیلئے مخالف بیانیہ بنایا جارہا ہے تو دوسری جانب مفاہمتی بیانیہ سے خود کو لاڈلہ ثابت کیا جارہا ہے اور یہ تا ثر بنایا جارہا ہے کہ وہ آئندہ اقتدار میں آنے والے ہیں ،اس اقتدار کی دوڑ میں مسلم لیگ( ن )اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے مد مقابل دکھائی دیتے ہیں اور سر دھڑ کی بازی بھی لگا رہے ہیں،تاہم یہ بات دونوں کو ہی بھولنی نہیں چاہئے کہ تحریک انصاف بھی تمام تر پا بندیوں کے باوجود ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر نہ صرف میدان میں موجود ہے،بلکہ عوامی ہمدردیاں اور حمایت بھی رکھتی ہے۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت تحریک انصاف پر کڑا وقت ہے ،لیکن یہ کڑوقت سدا نہیں رہتا ہے ، ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن ) بھی ایسا ہی کڑا وقت دیکھ چکی ہیں ،سبھی سیاسی پارٹیاں کبھی نہ کبھی زیر عتاب رہی ہیں ، لیکن ایسی آزمائشوں سے سیاسی پارٹیاں ختم ہوتی ہیں نہ ہی کسی سیاسی قیادت کو سیاست سے زیادہ دیر تک دور رکھا جاسکتا ہے، دوسری جانب کوئی ایک سیاسی جماعت ہمیشہ کیلئے کبھی کنگز پارٹی بھی نہیں رہتی ہے ،اس کا شیرازہ آہستہ آہستہ بکھر جاتا ہے ،آج جو پارٹی اقتدار کی دعوئیدار ہے ،شاید کل نہ رہے ، اس کی جگہ کوئی دوسرا بھی لے سکتا ہے ، یہاں و یسے بھی سیاسی فضاء بدلتے دیر نہیں لگتی ہے ،یہاںکب کچھ بدل جائے ،کچھ پتا ہی نہیں چلتا ہے ، اس لیے ایک ایسا مضبوط سیاسی نظام ہو نا چاہئے ،جو کہ مثبت مقابلے کی فضاء ہموار کرے اور اس میں جمہوریت پھل پھول سکے ،لیکن یہاں جمہوریت کے رکھولے ہی جمہوریت برباد کر نے پر تلے دکھائی دیتے ہیں ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کے علمبر دارونںنے ہی جمہوریت کو نہ صرف کمزو کیا ہے ،بلکہ آمریت کو بھی فروغ دیا ہے ،یہ اہل سیاست کی آمرانہ سوچ کا ہی نتیجہ ہے کہ اس جمہوریت میں جمہور کہیں دکھائی نہیں دیتے ہیں ، ہر جمہوریت عوام پر مدار کرتی ہے ، اگر اس میں سے عوام کو ہی نکال دیا جائے گا تو یہ جمہوریت کیسے کہلائے گی؟ ،اس نام نہاد جمہوریت کے نام پر ہی جس طرح آجکل منظور نظر جماعتوں کے غبارے میں ہوا بھری جارہی ہے ،اس کو دیکھتے ہوئے ہی انتخابات سے قبل ہی انتخابات کی شفافیت ہر آوازیں اُٹھنے لگی ہیں ، یہ آوازیں دنیا بھر میں تو سنائی دیے رہی ہیں ،لیکن الیکشن کمیشن کو ہی سنائی نہیں دیے رہی ہیں ۔
یہ عوام کی بد قسمتی رہی ہے کہ اس کی آواز کوئی سننا چاہتا ہے نہ ہی اس کی آوازپر کوئی لبیک کہہ رہا ہے ، یہاں سب ہی اپنے حصول مفاد کی دوڑمیںآگے نکلنے میں ہی لگے ہوئے ہیں ، عوام کی کوئی فکر ہے نہ ہی ملک کی بد حالی کا کوئی احساس ہے ، اس ملک کے فیصلے کہیں اور ہورہے ہیں اور کسی میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ بیرونی آقائوں کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اُٹھا سکے ، اس لیے سارے ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی وفاداری کا یقین دلارہے ہیں ،اپنی اقتدار کی باری یقینی بنارہے ہیں۔
اس پر ستم بالائے ستم ہے کہ حالات میںبہتری کی کوئی اُمیددکھائی نہیں دیے رہی ہے ، کیا ہی اچھا ہو کہ ہم حالات کو حقیقت کی عینک سے دیکھنے کی عادت ڈال لیں ، لیکن ہم حقائق کو جاننے کیلئے تیار ہیں نہ ہی اپنی حالت میں سدھار لانے کے ہی خوہشمند دکھائی دیتے ہیں ، ہم اپنے مفادات کیلئے سب کچھ ہی دائو پر لگائے جارہے ہیں ،اس صورت حال میںعوام کو خودہی اپنے مسقبل کا فیصلہ کر نا ہو گا ،اپنے لیے درست راستے کا انتخاب کرنا ہو گا ، اگر عوام نے درست ا نتخاب کافیصلہ کر لیا تو سب کچھ ہی سنور جائے گا ،ورنہ برباد ہونے سے کوئی بچا نہیں پائے گا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button