I miss you too Ali jee ۔۔۔ تحریر: حسیب اعجازعاشرؔ

پہلی باراپنے جذبات و احساسات کو قلمبند کرتے ہوئے عجب سا تذبذب ہے کہ جولکھنا چاہتا ہوں جی میں آ نہیں رہا اور جو جی میں آ رہا ہے وہ لکھ نہیں سکتا۔کسی کے ساتھ کیا ایک سفرہی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے جو کبھی ناکبھی کہیں نا کہیں یادوں کو گدگداتا رہتا ہے ہمارا تعلق تو کم و بیش بیس سال کا تھا ۔اگر دل کے آنسو ہوتے تو ضرور دیکھاتا کہ وہ کیسے علی جی کی موت کی خبر پر سمندر کے سمندر بہا رہا ہے ۔
دبئی میں ”علی جی” اور کینیڈا میں ”فہد اور ایلی براون” سے جاننے پہنچاننے والا میرا دوست,میرامحسن ”محسن مشتاق” اپنا نہیں تھا، سگا نہیں تھا، خونی بھی نہیں تھامگر اِس سے تعلق اپنوں ،سگوں اور خونی رشتوں سے بڑھ کر رہا۔جب ہم اکٹھے چائے نہ پی لیں دبئی میں رات نہیں ڈھلتی تھی، ایٹ اینڈ ڈرنک پر ڈنر نہ کر لیں جدا نہیں ہوتے تھے۔ہمیشہ یہی تاثر ملتا کہ میں ہی اُس کا ہمراز،ہمدم وہمسفر ہوں،راقم الحروف سے ہر بات دل کی کر لیتا تھا ۔بچپن ہی سے گھریلو ماحول کے باعث گھر سے دور الگ تھلک رہنا پسند کرتالیکن والدہ سے لگائو اُسکا ہاتھ تھام کر اُسے گھر لے آتا۔یارِغیر میں ناز نخروں سے پلا بڑھا مگر اتنا خدار کہ بھوکا رہنا قبول مگر اپنے گھر والوں سے سوال نہیں کرتا تھا دوست سے مانگتا نہ عزیزوں سے لیتا ہمیشہ ہاتھ اوپر رکھنا اس کے مزاج کا خاصا تھا۔وہ دوست بناتا نہیں تھا اگر بنا لے تو پھر چھوڑتا نہیں تھاکبھی اُس کے سامنے گپ شپ کھانے پینے گھومنے پھرنے میں قوائد وضوابط کی کتابیں نہیں کھولنا پڑتی تھیں خوشیوں کو دیکھانا اور آنسوئوں کو بہانانہیں پڑتا تھا وہ اتناحساس تھا کہ آنکھوں کے جھپکنے سے دل کی باتیں جان لیتا تھا وہ اچھادوست تھا ۔
یو اے ای میں بحیثیت ایونٹ کارڈینیٹر کئی کامیاب ایونٹس کے انعقاد میں پیش پیش رہا ،فوٹوگرافری سے عشق تھا جبکہ شوفر بھی تھا ۔پاک بھارت کے بڑے بڑے فنکاروں سے اچھی خاصی جان پہچان تھی۔ ٹاکرا ہوتا تو نام لے کر خیریت دریافت کرتے کہ ’’علی جی کیسے ہو ‘‘۔دوسری طرف یورپ میں مستقل سیٹل ہونے کا دھن اور جنون اُسے ٹورینٹو لے پہنچا،مئی 2011سے رابطوں میں تسلسل رہا ۔کینیڈا میں جس جواز کو بنیاد بنا کر مستقل پناہ کی درخواست کی وہ متعلقہ اداروں نے ناقابل قبول قرار دے کر خارج کر دی ۔حکومت کے ویلفیئر اکاونٹ سے500 ڈالر ماہانہ کی سپورٹ ملتی رہی 400 کرائے اور 100 ڈالر کھانے پر لگ جاتے۔نظرثانی اپیل بھی2012میں رد ہو گئی جس پر بہت افرسودہ تھا اور پریشان بھی کہ کسی بھی وقت ملک بدر کیا جاسکتا ہے ۔ اُس کی نظر میں یہاں مستقل قیام کیلئے شادی ہی واحد راستہ تھا مگر بقول علی کے کہ کوئی مجھ سے شادی کرنا نہیں چاہتا ۔اکثر پیغامات میں لکھ بھیجتا کہ ’’آئی مس یو ‘‘ ۔کوئی اُسے بھی آج بتا دے کہ ’’آئی مس یو ٹو علی جی‘‘۔ راقم الحروف کو علی جی کے آخری پیغامات کاجائزہ لینے پر یہ احساس ہوا کہ وہ دن بہ دن ذہنی دبائو کا شکار ہورہا تھا اور مجھے تسلی دیتے ہوئے کہ جلد اچھی خبر سنائو گا وہ وقت کے ساتھ ساتھ باتیں بھی چھپانے لگا تھا ۔
افسوس میں2021کے اوائل سے روابط میں تسلسل نہ رکھ سکا۔حقیقت تو یہ تھی کہ وہ کسی پراسرار بیماری میں مبتلا ہوچکاتھا،ڈاکٹر چلنے میں احتیاط کی تلقین کرتے رہے بصورت دیگر پائوں کاٹنے کا عندیہ دے چکے تھے،شوگر ہائی لیول کو چھونے لگی تھی،وزن بتدریج گررہا تھا،نظروں کی بینائی بھی کم ہوچکی تھی،ڈپریشن میں رہنے لگا تھا،قانونی حیثیت اور مالی پریشانیوں کا بھی شکار تھااور میں اِس گماں میں رہا کہ پیسے والا ہوگیا اپنے مال و حال میں مگن ہوچکا ہے اس لئے پرانے دوستوں کو بھول گیا۔ راقم الحروف اُس کا حقیقی دوست ہوتا تو حالات کو بھانپ لیتا مگر اُسے مر کر بتانا پڑا کہ اُس کی خداری نے اُس کے ہونٹوں پر قفل لگا رکھا تھا کہ اپنے دوست کو کیسے بتائے کہ ایک دہائی گزرجانے کے بعد بھی اپنے خوابوں کی تعبیر نہ پا سکا اور وہ خواب ایک ایک کر کے تسبیح کے دانوں کی مانند اِدھر اُدھر بکھر رہے ہیں ۔ فرتاش سید مرحوم نے کیا خوب کہا ہے۔
مِری عمر کی جو کتاب تھی، وہ نصاب تھی
وہ جو چند آخری باب تھے، مجھے کھا گئے
پندرہ ستمبر سے اُس کا بے جان جسم لاوارثوں کی طرح اپنے کمرے میں دس دن تک پڑا رہااور کم و بیش ایک ماہ ٹورینٹو کے سرد خانے میں اپنوں کے قدموں کی تھاپ سننے کو بے تاب تھا اور اُس کا یہ دوست اپنے گھروالوںکے ساتھ خوشیوں میں محو رہا ۔چند دن سے اِس احساس نے بے تاب کر رکھا ہے کہ راقم الحروف دوستی کیلئے اُس کا غلط انتخاب تھا، دوست تو وہ چنددرد مند لوگ تھے جو ایلی برائون کے مشکل وقت میں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے غافل نہیں تھے اور اُسکے میڈیکل چیک آپ سمیت دیگر اخراجات کا انتظام کرتے رہے ۔ جنہیں ایلی برائون(محسن مشتاق) کی موت نے بے چین کر دیا اوروہ ورثہ کی تلاش میں متحرک ہوگئے اور الیکٹرونک ،پرنٹ، سوشل میڈیا ، سفارت خانے اور قونصل خانے سمیت ہر پلیٹ فورم کو اِس مہم کیلئے استعمال کیا اور امارات میں مقیم ایلی برائون کے بھائی سے رابطہ میں کامیاب ہوگئے۔خراجِ تحسین ہیںسید معیز، یاسر حقی،فاروق ملک، ندیم انصاری،نجمل کرمانی ،ذیشان اور قونصل جنرل پاکستان برائے ٹورینٹو سمیت کینیڈا میں مقیم اِن حقیقی دوستوں کے جنہوں نے اِس کڑے وقت میں قدم سے قدم، کندھے سے کندھا اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایلی برائون کے سفر آخرت کی الوداعی لمحات کو عملی شکل دینے میں اپنے بے لوث کردار کو خوش اسلوبی سے ادا کر کے ثابت کر دیا کہ علی جی لاوارث نہیں تھا بلکہ وہ تو جانِ محفل تھا۔
۲۳اکتوبر کی دوپہر ۳۰:۲ بجے ٹورینٹو کی مقامی مسجد میں کلمے اور قرآنی آیات سے مزین کالی چادر میں لپٹا تابوت پہنچ چکا تھا،ہر آنکھ اشکبار تھی ہر دل افرسودہ،چہرے پر صدمے کے آثار خوب نمایا ں تھے، نمازیوںکا جمِ غفیر بتا رہا تھا کہ ایلی برائون اپنے تحمل مزاجی ،ملنساری اور جذبہ خدمت خلق سے ٹورینٹو میں مقیم پاکستانیوں کے دل بھی جیت چکا تھا ،بوقت تدفین بھی چاہنے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔کہتا تھا کہ جب تک کینیڈین پاسپورٹ نہیں ملے گا واپس نہیں آئوں گا اور اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔
قانون قدرت سے قضائے مبرم کی زد میں آکر چہرے پر مسکان سجائے،اپنے کیمرے کی آنکھ سے لوگوں کے حسین لمحات کو محفوظ کر کے خوشیاں بانٹنے والاعلی جی یوں اچانک داعی اجل کو لبیک کہہ کر سب کو داغ مفارقت تو دے گیا لیکن یورپ امریکہ کو اپنی آخری منزل تصور کرنے والوں کے لئے بڑا گہرا پیغام بھی چھوڑ گیا کہ اپنے دیکھے ہوئے خواب بکھر جائیں تو انسان سنبھل سکتا ہے لیکن بھیڑ چال میں دوسروں کے دیکھائے ہوئے خواب جب ٹوٹتے ہیں تو انسان بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔
علی جی کی موت نے خونی رشتوں، نام نہاد دوستوں سمیت دیارِ غیر میں مقیم مفاد پرستوں کے دلوں کو خوب جھنجھوڑ دیا ہے ،کینیڈا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی اور سوشل میڈیا پر یہ موضوع زیربحث بن چکا ہے تا کہ دیارِ غیر میں پھرکبھی کوئی ایلی برائون نہ بنے۔ کہ کیسے ایک پاکستانی کے ٹوٹتے خواب اُس کی سانسوں کو نگل رہے تھے مگر اُس کے زیرِلب تبسم نے انسانوں کی بھیڑ میں کسی پر اپنی لاچاری اور بے بسی کو عیاں نہ ہونے دیا۔ و ہ بیماریوںسے لڑ رہا تھا ، مستقل رہائش کیلئے عدم دستیاب قانونی دستاویزات اور مالی حالات کی وجہ سے شدید ذہنی تنائو و اذیت میں تھا،انکشاف ہوا کہ ٹورینٹو میں کچھ لوگ اُسے اپنے مفادات کیلئے استعمال کر تے رہے اوراُس کی محنت کا معاوضہ ہڑپ کرجاتے اور ہم یہاں اپنی اپنی دنیا میں چین کی بانسرین بجا تے رہے۔یہ پیغام ہر باشعور انسان کیلئے ہے کہ اپنی زندگی سے وابستہ ہر خاص و عام کے حال احوال سے باخبر رہنا چاہیے کیونکہ کوئی عزت نفس کے ہاتھوں مجبور اپنی مشکلات بیان نہیں کرتا ،اُس کا کرب اُس کے چہرے سے پڑھنا پڑتا ہے۔ علی جی تمہارے جانے سے محفلیں ہی ویران نہیں ہوئیں بلکہ دلوں میں بھی سناٹا سا چھا گیا ہے۔ اللہ تمہاری اگلی منزلیں آسان کرے او رقدم قدم پر جنت عطا فرمائے ۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button