’’ڈاکٹر یوسف عالمگیرین! میرے استاد ‘‘
ایسا کون اہل علم و دانش یا اہل الرائے و نظر ہے جو سکندر اعظم کے نام و مقام یا اس کے فنی و عسکری کارناموں سے شناسائی وآگاہی نہیں رکھتا کہ 365 قبل مسیح میں فلپ دوئم کے گھر جنم لینے والا یہ بچہ زمانہ قدیم کی عظیم ترین فتوحات کا سلسلہ شروع کرے گا،سکندر ِ اعظم نے صرف 21سال کی عمر میں یونان کے اندر پھیلی ہوئی بد ترین بغاوت کو کچل ڈالا اور پھر 334قبل مسیح میں زمانہ قدیم کی عظیم ترین فتوحات کا سلسلہ شروع کیا۔ 334ق م کی جنگ گرینی کس میں فاتح کہلایا، اگلے ہی سال 333ق م میں جنگ اسوس میں فتح حاصل کی، دو سال بعد 331ق م میں گاگے میلا یا ارسلا میں فتح حاصل کر کے ایک فاتح کی حیثیت سے ایشیائے کوچک پر قابض ہوا۔
اسی سال مصر کو باآسانی فتح کر لیا اور ایرانی بادشاہ دارا سوئم کو شکستِ فاش دے کر ایران بھی فتح کر لیا پھر باختر سے ہوتا ہوا سیدھا ہندوستان تک پہنچا جہاں 326ق م میں راجا پورس کو عبرتناک شکست دی اور پورے ہندوستان کا قابض ہوا۔ اب سکندر اعظم کی فوج 12سال تک مسلسل لڑتے لڑتے چونکہ تھک چکی تھی لہذٰا دریائے بیاس پر اس کی سپاہ نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ جس وقت سکندر اعظم کی فوج نے دریائے بیاس سے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور سکندر اعظم کو اپنی فوج مختلف حصوں میں تقسیم کرنا پڑی اس وقت سکندر اعظم کا استاد بھی اس کے ہمراہ تھا۔ سکندر اعظم اپنی فوج کے ہمراہ اپنے گھوڑے پر آگے آگے چل رہا تھا اور اس کا استاد بھی اپنے گھوڑے پر سکندر اعظم کے ساتھ ساتھ۔ اب ایک مقام پر آ کردریا کو عبور کرنا تھا۔ دریا کی طغیانی کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی اس میں اترتا تو دریا کی خوفناک لہریں اسے نگل جاتیں۔
سکندر اعظم اور اسکا استاد دریا کے کنارے اس کے خوفناک بہائو اور قاتل لہروں کو دیکھ رہے تھے۔ دریا عبور کرنا بھی لازم تھا لہذٰا سکندراعظم کے استاد نے کہا کہ پہلے میں دریا میں اترتا ہوں، اگر میں مر بھی گیا تو کوئی بات نہیں اس لئے کہ دنیا کو سکندر اعظم کی ضرورت ہے۔ سکندر اعظم نے استاد کی طرف دیکھا اور مسکرایا پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس نے ایک تاریخی جملہ ادا کیا اور دریا میں کود گیا۔ ’’نہیں! پہلے میں دریا میں اترتا ہوں ، اگر میں مر بھی گیا تو کوئی بات نہیں اس لئے کہ سکندر استاد پیدا نہیں کر سکتا مگر استاد میرے جیسے ہزاروں سکندر پیدا کر سکتا ہے‘‘۔استاد کی قدر نے سکندراعظم کو وہ مقام دیا کہ جو آج تک کم ہی کسی کو نصیب ہوا ہے ،ڈاکٹریوسف عالمگیرین کو میں اپنا استاد مانتا ہوں کیونکہ میںنے ان کی تحریروںسے بہت کچھ سیکھا ہے ۔
مجھے ہمیشہ سے ان کی تحریریں بہت متاثر کرتی آئی ہیں اور میں اکثر اپنی زندگی کی بہت سے گتھیاں ان کی تحریروں کی مدد سے سلجھانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ،آپ کی تحریروں میں ہمیشہ ایک امید ہوتی ہے،اچھے مستقبل کی ،اچھے دنوں کی ۔آپ کی تحریریں اسلامیت،پاکستانیت اور انسانیت کی علمبردار ہوتی ہیں ،جن میںدین بیزای اور قوم سے مایوسی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ڈاکٹر یوسف عالمگیرین صرف ایک بڑے کالم نویس ہی نہیں بلکہ عظیم لکھاری منفرد خاکہ نگاراور بہترین شاعر بھی ہیں وہ ایک ہشت پہلوادیب ہیں نثر کی جس بھی صنف پر انہوں نے قلم کو جنبش دی تو ان کے نوک قلم سے اردو کی شاہکار تحریریں صفحہ قرطاس پر روشن ہوئیں ۔
ڈاکٹر یوسف عالمگیرین اپنا ایک منفرد اسلوب رکھتے ہیں کالم نگاری ہو ،مضمون نویسی ،خاکہ نگاری یاان کی شاعری وہ اپنی جدا گانہ اور منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں ۔ان کی ہر تحریر ایک عجب طلسماتی کیفیت لیے ہوتی ہے خاکہ نگاری ہو کالم نویسی یا شاعری وہ کچھ بھی لکھیں قاری ان کے قلم کے طلسم میں مبتلانظر آتا ہے ۔تحریر میں اتار چڑھائو لہر کی مدوجز کی طرح قاری کو اپنے ساتھ بہاتا چلاجاتا ہے یہ وہ خصوصیت ہے جن کے معدود ادیب ہی حامل نظر ہیں ،ان ادباء اور منفرد شاعروں میں ایک بڑا اور معتبر نام ڈاکٹر یوسف عالمگیرین کا بھی ہے۔
پاکستان میں کالم نویسی اگرچہ عام سمجھی جاتی ہے مگر جو لوگ اصلاح معاشرہ ،ظلم وجدل کے خلاف قلم کو تلوار بنائے ہوئے ہیں یہ لوگ اس دور کے سچے اور بڑے انسان ہیں کیونکہ کم لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو معاشرے کے نبض شناس ہوتے ہیں اور زہر ہلال کو قند کہنے سے انکار ی ہیں ،یہی اہل قلم جابر سے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا ہنر اور جرأت رکھتے ہیں ۔ڈاکٹریوسف عالمگیرین نے کالم نگاری کی طرف متوجہ ہوکر بطور خاص اس صنف اور بالعموم اردو ادب پر احسان کیا ہے۔ اس دور میں سچ اور مثبت لکھنے والے بہت کم لوگ ہیں مگر وہ نڈر ،بہادر اور سچے کالم نویس کے طور پر خود کو منوا چکے ہیں ،ان کے اقوال ،جملے اور ان کے کالم ادب کا ورثہ ہیں۔
آج کی الم انگیز اور بے کیف دنیا میں ضرورت ایسے فکائیہ کالم نگاروں کی ہے جو اپنے پڑھنے والوں کو پرلطف ،حوصلہ افزا اور مزے دار تحریریں پڑھوائیں جنہیں پڑھ کر ماحول کی سختی اور دل شکستگی دور ہو اور ساری تھکن اور بے کیفی چھٹ جائے ،ڈاکٹر یوسف عالمگیرین کی تحریروں میں یہ سبھی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔اگر ان کی کامیابیوں کی طرف دیکھا جائے تو دو چیزیں واضح نظرآتی ہیں پہلی چیزان کی انتھک محنت،لگن ،جذبہ اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کامل ہے اور دوسری چیزجو ان کی شخصیت میں نمایاں دکھائی دیتی ہے وہ ہے آپ کی عاجزی ،اخلاق اور انسانیت سے محبت ہے ۔وہ جتنے بڑے ادیب ہیں اتنے ہی بڑے ملنسار ہیں ۔آپ ہمیشہ دوسروں کے ہر اچھے اقدام کو تحسین وتعریف کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ان کی اس خوبی نے مجھ جیسے لاکھوں طفلاں مکتب کو قلم سے روشناس کروایا ہے ۔
آپ اپنے اندر علم وادب کے خزانے رکھتے ہیں جن سے مجھ جیسے لاتعدادطالب علم مستفید ہوتے رہتے ہیں ۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر یوسف عالمگیرین کو صحت وعافیت والی عمردراز عطا فرمائیں۔آمین، کیونکہ قوم کو ایسے استاد کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے ،جو قوم کو مایوسیوں سے نکال کر ان میں اعتماد اور یقین پیدا کرسکے ،اور ڈاکٹر یوسف عالمگیرین کو اللہ تعالیٰ نے اس صلاحیت سے نوازا ہوا ہے ۔مجھے سکندر اعظم کے اس تاریخی جملے نے ہمیشہ بہت متاثر کیا ہے۔ ’’نہیں! پہلے میں دریا میں اترتا ہوں ، اگر میں مر بھی گیا تو کوئی بات نہیں اس لئے کہ سکندر استاد پیدا نہیں کر سکتا مگر استاد میرے جیسے ہزاروں سکندر پیدا کر سکتا ہے‘‘۔بے شک ایک استاد لاکھوں کالم نگار پیدا کرسکتا ہے ،مگر لاکھوں شاگرد ایک استاد کے مقام کو نہیں پہنچ سکتے ۔