نور احمد اور منظور عالم بھی چلے گئے

پچھلے چند دنوں میں دو افراد اللہ کو پیارے ہوگئے ان میں ایک مدینہ منورہ کے حاجی نوراحمد اور دوسرے مکہ کالونی لاہور کے رہائشی حاجی منظورعالم ہیں یہ دونوں افراد حقیقی معنوں میں عاشق رسول اور مثالی پیار کرنے والی شخصیت اور لوگوں کی خدمت کرنے والے ایسے افراد تھے کہ جو ان سے ایک بار مل لے وہ انہی کا ہو کر رہ جاتا تھا پچھلے سال میں عمرہ کی ادائیگی کے لیے جب سعودی عرب گیا تو وہاں جدہ میں رہائش پذیر میرے قریبی عزیز اور دوست طلعت محمود نے مکہ میں حاجی اللہ یار کے گھر اور مدینہ میں حاجی نور احمد کے ہوٹل میں میری رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کروایا جدہ میں میں اسکے گھر ہی رہا۔
حاجی اللہ یار بھی خوبصورت انسان ہیں مکہ میں اپنا ذاتی کام کرتے ہیں کھانے پینے کے خوب شوقین ہر ہفتے چھٹی والے دن پائے بناتے ہیں اور پھر دوستوں کی دعوت کرتے ہیں مجال ہے کہ وہ اپنے پاس آنے والے کسی بھی مہمان کو ایک ریال بھی خرچ کرنے دیتے ہوں میں ایک دن چائے بنانے کے لیے دودھ کا ڈبہ باہر سے لے گیا جس پر انہوں نے اس ڈبے کے پیسے زبردستی مجھے واپس کردیے میں نے انکار کیا تو کہنے لگے بھائی اپنا سامان اٹھاؤ پھر کسی اور جگہ چلے جاؤ جس پر میں نے ان سے پیسے واپس لے لیے اللہ یار ایسا خوش اخلاق اور پیار کرنے والا انسان ہے کہ ایک بار ملنے کے بعد بار بار ان سے ملنے کو دل کرتا ہے اسی دوران جدہ سے طلعت محمود کا چکر بھی لگتا رہا اور ہم طائف بھی گھوم پھر آئے طلعت محمود بورے والا اور گگو منڈی کا رہائشی ہے عرصہ دراز سے سعودی رائل ائر پورٹ پر کپتان ہے وہ بھی سعودی عرب میں ایسی شخصیت ہے کہ ہر پاکستانی کی جان ہے بور سے بور طبیعت کا مالک شخص بھی اسکے پاس تھوڑی بیٹھ جائے تو وہ بھی خوش گفتار بن جاتا ہے اسکی باتوں کا جادو ایسا ہے کہ انسان اپنی پریشانی تک بھول جاتا ہے زندہ دل اور دلیر انسان ہونے کے ساتھ ساتھ پیار کرنے والا بھی ہے ۔
مکہ میں تقریبا 14دن گذارنے کے بعدمیں طلعت کے ساتھ جدہ اسکے گھر آگیا وہاں چند گذارنے کے بعد اس نے مجھے مکہ میں ایک ایسی شخصیت سے ملوایا جو سب کچھ ہونے کے باوجود اللہ کا ایسا نیک اور سادہ بندہ تھا سعودی عرب میں کوئی بھی غیر ملکی شہری اپنے نام سے کاروبار نہیں کرسکتا لیکن نور احمد اللہ کاایسا خاص بندہ تھا کہ پاکستانی،ہندوستانی،لبنانی،مصری اور دنا بھر سے آئے لوگ اسکے گرویدہ تو تھے ہی ساتھ میں سعودی بھی اس سے پیار کرتے تھے اور وہ واحد شخص تھا جس نے اپنے نام سے مطعم نور ہوٹل بنا رکھا تھا روضہ رسول سے چند منٹ پیدل مسافت پر انکا ہوٹل تھا طلعت محمود نے جب میری حاجی صاحب سے ملاقات کروائی تو انکا اخلاق اور پیار دیکھنے والا تھا طلعت مجھے حاجی صاحب کے ہوٹل چھوڑ کر واپس چلا گیا اور میں پھر 14دن مطعم النور میں حاجی نور احمد کا مہمان رہا نیچے ہوٹل اور اوپر کمرہ تھا جہاں میرے رہنے کا انتظام تھا ۔
میں جب بھی نیچے اترتا حاجی صاحب زبردستی کچھ نہ کچھ کھلا دیتے جبکہ چائے کا کپ تو ہر آدھے گھنٹے بعد مجھے دیدیا جاتا پچھلے دنوں طلعت محمود نے بتایا کہ حاجی نور صاحب فوت ہوگئے ایسے خوبصورت اور ہمدرد انسان کو موت بھی جب گلے لگاتی ہے تو فخر محسوس کرتی ہوگی کہ میں ایک ایسے نیک اور پیارے انسان کو اللہ کے حضور لیکر جارہی ہوں جس نے روضہ رسول کے سامنے بیٹھ کر اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمت کی اب انکا بیٹا زبیر اپنے باپ کی جگہ لوگوں کی خدمت کرنے میں مصروف ہے اور ابھی چند دن پہلے حاجی منظور عالم بھی اللہ کو پیارے ہوگئے جو حب رسول سے لبریزایسا شخص تھا جو زبان پر نام محمد آتے ہی تڑپ اٹھتا تھا کہ کب مدینے سے بلاوا آئے اور وہ ننگے پاؤں دوڑ لگا دے حاجی منظور مکہ کالونی لاہور کا رہنے والا تھا جو آج سے چند دن پہلے اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔
میں جب سعودی عرب میں تھا تو روضہ رسول سے انہیں ویڈیو کال کی جب انکی نظر سبز گبند پر گئی تو پھر آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی اپنی کپکپاتی آواز میں سلام عقید پیش کرنا شروع کردیا حاجی صاحب اللہ کے ایسے نیک بندے تھے کہ جو انکے پاس ایک مرتبہ آگیا پھر وہ انہی کا ہو کررہ گیا دوستوں پر جان نچھاور کرنے والے حاجی منظور صاحب سے میری ملاقات آج سے تقریبا 25سال پہلے اس وقت ہوئی جب میں لاہور آیا تھا میں میرے پاس رہنے کوکوئی خاص جگہ نہیں ہوتی تھی ویسے تو رشتہ دار بہت زیادہ تھے میرے نانا کے بھائی چوہدری اسلم صاحب اس وقت لاہور میں رینجر کے ونگ کمانڈر ہوا کرتے تھے۔
میری والدہ محترمہ کے فرسٹ کزن میاں قیوم صاحب ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ جو ریٹائر منٹ کے بعد اینٹی نارکوٹکس کے سربراہ لگ چکے تھے اورتو اور بہت ہی ہمدرد،مخلص اور پیار کرنے والے اس وقت ڈی آئی جی ٹریفک پنجاب شیخ اسرار احمد بھی لاہور میں ہی تھے اور میں ایک نیوز ایجنسی میں بطور رپورٹر کام کرتا تھا سارا دن کام کرنے کے بعدجب رات کو حاجی صاحب کے گھر پہنچتا تو وہ خندہ پیشانی سے استقبال کرتے کھانا کھلاتے اور پھر بیٹھک میں میرے سونے کا انتظام کرتے ان سے میری ملاقات ہڑپہ کے نزدیک ایک گاؤں میں رہنے والے شمشاد رسول نامی شخص نے کروائی جواپنے آپ کو صحافی کہلاتا تھا اسکی وجہ سے اسکے دوست بھی ہمیشہ اس سے تنگ ہی رہے آئے روز کسی نہ کسی کے خلاف درخواست دینا اسکا معمول تھا اسی چکر میں ایک بار سیکریٹریٹ میں جعل سازی کرنے پر اسکے خلاف مقدمہ بھی درج ہواجسے پیر عرفان شاہ نے بہت کوششوں سے ختم کروایا۔
خیر میں بات کررہا تھا حاجی منظور صاحب کی جو اب اس دنیا میں نہیں رہے انہوں نے اپنے گھر میں دیسی ادویات،مختلف اقسام کے تیل اور خالص بادام روغن بھی رکھا ہوتا تھا جسے وہ ہر آنے والے دوست کو بطور تحفہ پیش کرتے اسکے ساتھ ساتھ محلے کے جتنے مریض لوگ ہوتے وہ انکی اپنی بنائی ہوئی ادویات سے مفت علاج کرتے محلے بھر میں حاجی صاحب کے گھر کی بیٹھک کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا تھا وہ علاقے کی ایسی ہر دل عزیز شخصیت تھے کہ بچے بھی انکے پاس آکر کھیلتے،جوان بھی آکر انہیں اپنے دل کی باتیں بتاتے اور بزرگ تو انکے گرویدہ تھے باتوں کا خزانہ تھا انکے پاس ہر کسی کی دلجوئی کرنا انکا پسندیدہ مشغلہ تھا عاشق رسول ایسے تھے کہ انکی گفتگومیں آپ ﷺ کی محبت کا رنگ جھلکتا تھا میں جب کبھی انکے پاس جاتا تو دنیا بھر کی باتوں کے بعد ہم دونوں اس بات پر اپنی بات ختم کرتے کہ اب اکھٹے سعودی عرب جانا ہے انکی ہر وقت کوشش اور خواہش ہوتی تھی کہ وہ روضہ رسول پہنچ جائیں اور پھر اپنی باقی زندگی سبز گبند کے سائے تلے گذار دیں۔
افسوس انکی یہ خواہش تو پوری نہیں ہوئی لیکن مجھے امید ہے کہ جتنے سکون سے انہوں نے موت کو گلے لگایایقینا اس وقت بھی انکی نظروں کے سامنے سبز گبند ہی ہوگا انکی تربیت کا رنگ انکی اولاد میں بھی جھلکتا ہے وہی پیار،محبت،اخلاق اور اخلاص جو حاجی صاحب کی علامت تھی وہی انکے بچوں کی نشانی بن چکا ہے خاص کر انکے بڑے بیٹے ملک شفیق کے اندر ملنساری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اللہ تعالی حاجی نور احمد اور حاجی منظور عالم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button