اقبال کا خواب اور بھکاری پاکستان

پاکستان کا خواب دیکھنے والے اور شاعر مشرق سر ڈاکٹرعلامہ اقبال کا146واں یوم ولادت 9نومبر کو منایا جاتا ہے۔ ملت اسلامیہ کو ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“ جیسی آفاقی فکر دینے والے بیسویں صدی کے عظیم صوفی شاعر،قانون دان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیت ڈاکٹر سر علامہ اقبال9نومبر 1877ء کوسیالکوٹ میں پیدا ہوئے علامہ اقبال جدید دور کے صوفی شاعر تھے انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے امت مسلمہ میں انقلابی روح بیدار کی ان کی شاعری میں تصوف اور احیائے اسلام کا رنگ نمایا ں تھا۔
سر علامہ اقبال کی شاعری کی کتب کی انگریزی،جرمن،روسی،فرانسیسی،چینی،جاپانی اور دیگر زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کو عظیم مفکر تسلیم کیا جاتا ہے۔سر علامہ محمد اقبال کا بطور سیاستدان عظیم ترین کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے یہ نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بناسر ڈاکٹر علامہ اقبال نے قیام پاکستان کو آنکھوں سے نہیں دیکھا وہ پاکستان کی آزادی سے قبل 21اپریل 1938ء کو انتقال کر گئے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد ان کے عظیم کارناموں کے اعتراف میں انہیں قومی شاعر کا درجہ دیاگیا لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ جو حشر ہم نے قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کیا تھااسے الیکشن ہروایا کتے کے گلے میں انکی تصویریں ڈالی اور غداری کا لیبل لگایا اس سے بھی برا حشر ہم نے علامہ اقبال کی اولاد کے ساتھ کردیا کیا ہم شروع سے ہی محسن کش تھے یا بعد میں ہمیں بنا یا اس پر کبھی موقعہ ملا تو کھل کر لکھوں گا فلحال تو یہ بتانا تھا آج جس شخصیت کا ہم یوم ولادت منا رہے ہیں اسی کے گھر کا دروازہ توڑ کر ہم اندر گھسے تھے اور علامہ اقبال کی 80سالہ بہو اور پوتے کوگریبان سے پکڑ کر گھسیٹا تھا ہم کیسی قوم ہیں کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مرتے دم تک گھر میں نظر بند رکھا۔
جن لوگوں نے پاکستان کے لیے جدوجہد کی نعرے لگائے کہ لے کے رہیں گے پاکستان،جن لوگوں نے بلا خوف و خطر جلسے کیے،جلوس نکالے اور پھر آخر میں اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا اپنی ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کی قربانی دی لاشوں سے بھری ہوئی ٹرین کا لاہور ریلوے اسٹیشن پر استقبال کیا وہ سب کے سب غریب لوگ تھے جنکی بے لوث قربانیوں کے بعد پاکستان بنا اور آج اسی پاکستان میں غریب کو بے عزت کیا جاتا ہے غریب کو لوٹا جاتا ہے غریب کو مارا جاتا ہے غریب کو ان پڑھ اور جاہل رکھا جاتا ہے اور تو اور غریب کے ووٹ سے ایوان اقتدار میں آنے والے پھر غریبوں کو روندنا شروع کردیتے ہیں حکمران امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور پاکستان بنانے والی عوام غریب سے غریب تر ہوتی گئی غریب عوام کے نام پر قرضے لیے گئے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ آج پاکستان کے مجموعی قرضوں کی مالیت 64 ہزار ارب کی نئی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے عمران خان کی حکومت کو ختم کرکے آنے والے پی ڈی ایم ٹولے نے بھی اگست 2023 میں 2 ہزار 218 ارب روپے کے نئے قرض لیے جسکے بعد پاکستان پر مقامی قرضوں کا بوجھ 24 فیصد اضافے سے 39 ہزار 792 ارب جبکہ بیرونی قرضوں کی مالیت اگست 2023 میں 24 ہزار 175 ارب روپے ہوگئی تھی ہمارے حکمران ہاتھوں میں کشکول لیے دنیا بھر میں امداد کے لیے گھومتے ہیں لیکن کہیں سے کچھ نہیں ملتا سوائے قرضوں کی بھیک کے ان حکمرانوں کی وجہ سے عوام بھی بھکاری بن گئی ابھی حال ہی میں ایک سروئے ہوا جسے پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ہم نے اب تک صرف بھکاری ہی پیدا کیے اور پھر انکی حوصلہ افزائی کی اس رپورٹ کے مطابق 24 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں 3 کروڑ 80 لاکھ بھکاری ہیں جس میں 12 فیصد مرد، 55 فیصد خواتین، 27 فیصد بچے اور بقایا 6 فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں ان بھکاریوں کا 50 فیصد کراچی، 16 فیصد لاہور، 7 فیصد اسلام آباد اور بقایا دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے کراچی میں روزانہ اوسط بھیک 2ہزار روپے، لاہور میں 1400 روپے اور اسلام آباد میں 950 روپے ہے ۔
پورے ملک میں فی بھکاری آمدن اوسط 850 روپے ہے روزانہ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32 ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں سالانہ یہ رقم117 کھرب روپے بنتی ہے اگر ڈالر کی نظر میں دیکھیں تو پھر یہ رقم تقریبا 42 ارب ڈالر بنتی ہے یہ بھکاریوں کی پاکستان میں آمدن ہے جنہوں نے اپنے کاروبار کو ترقی دینے کے لیے بیرون ممالک کا رخ بھی کررکھا ہے خاص کر سعودی عرب میں پاکستانیوں بھکاریوں کا بہت سے تعداد موجود ہے سنا ہے اب وہاں کی حکومت پاکستانی بھکاریوں کے خلاف سخت پالیسی اپنا لی ہے اسی طرح ہمارے سرکاری ملازمین بھی اپنی تنخواہ کے ساتھ اربوں روپے صرف غریب رہڑھی والوں کی جیبوں سے نکال رہے اس سے اوپر کے کاروباری حضرات افسران کو کیا کیا دیتے ہونگے اس کا اندازہ آپ رہڑھی والوں کے بعد خود اندازہ لگالیں میں یہاں صرف ایک چھوٹی سے مثال دیتا ہوں پورے پاکستان پر آپ اسے تقسیم کرکے دیکھ لیں کہ کتنے پیسے سرکاری افسران لوٹ رہے ہیں۔
لاہور کا ایک ٹاؤ ن شالامار ہے جہاں بہت سی تاریخی اور نادر چیزیں بھی ہیں خاص کر شالامار باغ اور تاریخی مقبرے اس ٹاؤن کی حیثیت نمایاں کرتے ہیں اس ٹاؤن کی حدود میں لاکھوں دوکانیں اور کاروباری افراد ہیں آپ گڑھی شاہو کا پل اتر کر جیسے ہی جی ٹی روڈ پر چڑھتے ہیں تو اس روڈ پر سینکڑوں افراد رھڑی لگائے کھڑے ہوتے ہیں جن پر سبزیاں،پھل اور مختلف اشیاء لگی ہوتی ہیں اسی روڈ پر آپ کو سڑک کے اوپر ہی بہت سے مچھلی فروخت کرنے والے بھی نظر آئیں گے۔
اسکے علاوہ شالامار ٹاؤن کی حدود میں درجنوں بازار بھی آتے ہیں فیکٹریاں،کارخانے اور درجنوں ناجائز فروش بھی اسی علاقے میں اپنا کاروبار کرتے ہیں کہتے ہیں ناں کہ دیگ میں سے چند چاول چھکنے سے پوری دیگھ کا اندازہ ہوجاتا ہے اسی طرح آپ لوگوں کو صرف بتانے کے لیے ایک چھوٹی سی مثال دے رہا ہوں اسکے بعد آپ اسے پورے ملک کے حساب سے دیکھ لیں کہ ہم کیا کررہے ہیں یو ای ٹی سے داروغہ والا تک تقریبا 1500رہڑیاں لگتی ہیں ان سے ہمارے ٹاؤن کے ملازمین ہر ماہ ایک ہزار سے 25سو روپے تک وصول کرتے ہیں جو تقریبا 20 لاکھ روپے ماہانہ بنتے ہیں۔
اس میں مچھلی فروش،فٹ پاتھ قبضہ گروپ،فیکٹریاں،ناجائز فروش اور قبضہ گروپ شامل نہیں ہیں جن سے بھی ہمارء شیر جوان ہر ماہ باقاعدگی سے بھتہ وصول کرتے ہیں یہ وہ علامہ اقبال کا پاکستان جسکا خواب انہوں نے دیکھا تھا اور اس ملک کو ہم نے لوٹ مار کی آماجگاہ بنا دیاجو حشر شالامار ٹاؤن کا ہے وہی پورے پاکستان کا اوپر سے نیچے تک کرپشن ہی کرپشن ہے جو نہیں کرتا وہ بھوک،افلاس اور غربت سے جنگ کررہا ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button