کیوں؟

اگرانسانی مقصد حیات کا بنظر عمیق مشاہدہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی زندگی ان دو الفاظwhat & why کے گرد گھومتی ہے۔اول الذکر انسانی اذہان میں سوالات کے گورکھ دھندے جبکہ موخرالذکر فلسفہ کو جنم دیتا ہے۔حضرت علی ؑ کا ارشاد ہے کہ سوال آدھا علم ہے۔فرانسس بیکن کا کہنا ہے کہ جو جتنا زیادہ پوچھتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ حاصل کرتا ہے۔بائیڈن کہتا ہے کہ جن قوموں کے ذہنوں میں سوال پیدا نہیں ہوتا وہ منافق ہیں اور جو سوال اٹھانا نہیں جانتے وہ بزدل ہیں۔گویا سوال کرنا ہی علم ہے۔اس سے انسان سیکھتا ہے،یہی سیکھنے اور علم کے حصول پر سب سے زیادہ تعلیم وتبلیغ اسلام کا خاصہ خاص ہے۔کہ پہلی وحی ہی اقرا یعنی علم کے بارے میں تھی۔وحی اول اس بات کی غمازہے کہ علم مذہب اسلام کی پہلی ترجیح اور حصول جہاد سے کم نہیں۔آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو حصول علم کے لئے نکلتا ہے فرشتے اس کی راہ میں اپنے پر پھیلا دیتے ہیں۔مگر کف افسوس کہ ہم نے اسلاف کی میراث کوبھلا کر آج ہم ایک بار پھر جہالت کی پاتال کو چھو کر دنیا کے لئے مقام عبرت اور جگ ہنسائی کا ساماں بنے ہوئے ہیں۔
فلسفہ جو کہ کیوں ؟سے جنم پذیر ہوتا ہے۔فلسفہ جو کہ یونانی لفظ فلوسوفیا سے ماخوذ ہے،اگر فلوسوفیا کو عمیقی نقطہ نظر سے دیکھے تو اس کا مطلب’’عشقِ دانش‘‘ہے۔اور یہ عشق اقدار،وجوہات،سبب وعلل اور زبان جیسے معاملات سے متعلق بنیادی مسائل کا مطالعہ کرتا ہے۔جیسے کہ ہمارے ارد گرد بہت سے بنیادی معاشی وسماجی مسائل کیوں ظہور پذیر ہو رہے ہیں،ان کی وجوہات کیاہیں۔ہماری اقدار کس وجوہ کی بنا پر گہنائی جا رہی ہیں،اس کے پس پردہ کون سے عوامل برسر پیکار ہیں۔ہماری اخلاقی گراوٹ و پستی کی وجوہات کن معاملات کے سبب ہیں۔یہ وہ سب باتیں ہیں جو ہمارے ارد گرد ایک سوال اوراس کے جواب کی تلاش میں ہمارا منہ چڑائے ملتے ہیں لیکن مجال ہے جو ہماری مردہ رگوں میں خون کا ایک شرارہ بھی جوش مارتا ہے،کہ ہمیں آج نہ صرف ان سوالات کے جواب تلاش کرنے ہیں بلکہ ان کے حل کے لئے بھی کئی راستے کھوجنے ہیں۔لیکن ایسا ہوتا نہیں کیونکہ ہمارے تو ذہن اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان میں سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ہم ایسے مردہ ضمیر مشت خاک ،بے کفن لاشے اور اپنی ذات کے حصار میں مقید وہ قیدی ہیں جنہیں تکبر کی قید میں قدرت نے مبتلا کر رکھا ہے،شائد اسی لئے اب نہ سوال ،نہ جواب،نہ دانش،نہ فکر وفلسفہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔جب عشق دانش باقی بہ رہے گی تو رومی وحالی،اقبال،وقائد،ابن جوزی وابن خلدون کہاں سے پیدا ہوں گے۔میں یہ اکثر کہا کرتا ہوں کہ جن قوموں کے افراد سوال سے خالی ہیں وہ قومیں علمی و اخلاقی اعتبار سے بانجھ ہیں اور بانجھ قطع اراضی سے خوشہ گندم کی امید دیوانہ پن کے سوا کچھ اور نہیں۔آخر ایسا کویں ہوتا ہے اس کے جواب میں نے تلاش کرنے کی سعی کی ہے۔
ہم اپنے ایمان کی خاطر مسجد بناتے ہیں۔اس کی تزئین وآرائش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے،آبگینوں کا استعمال،مہنگے پتھر کا استعمال،چرخ ِ کبود کو چھوتا مینار،لائٹ پانی اور صفائی ہر اس چیز کا خیال رکھتے ہیں جن سے اللہ کو راضی کرنے کا عمل محسوس ہوتا ہو۔لیکن ان مسجد کے قریب ہی کسی دیگر مذہب کا معبد خانہ بن جائے تو اسے نذر آتش کرنے میں پل بھر کی تاخیر بھی باطل ایمان کا حصہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ایسا کیوں؟۔ہر دوسرے بچہ کا پاکستان میں یہ خواب ہے کہ وہ ڈاکٹر بنے خواہ کسی پرائیویٹ یونیورسٹی سے ہی کیوں نہ ہو،سفید کوٹ پہننے کے لئے شب وروز محنت شاقہ،ضخیم کتابیں،ماں بات سے دوری اور ان کے پیسوں کو پانی کی طرح بہانا،صرف اور صرف اس جذبہ کے ساتھ کہ سفید کوٹ پہن کر انسانوں کی مسیحائی کروں گا،لیکن جب ڈاکٹر بن جاتا ہے تو نہ جانے مسیحائی کا جذبہ ماند کیوں پڑجاتا ہے، اس کی آنکھوں کے سامنے سسکتی،تڑپتی،بے کوروکفن لاشیں چیخ چیخ کر اسے پکار رہی ہوتی ہیں لیکن ایک لمحہ اسے مسیحا سے ڈاکو اور اسی سفید کوٹ کو چند سکوں کے عوض سفید کفن بنا کر اسے غریب مریض کے ساتھ ہی دفن کردیتا ہے۔کیوں؟قانون ساز ادارے،عدالتیں ججزاور وکیل جنہیں پاسبان کہاجاتا ہے۔وکیل جو کہ حسبنااللہ و نعم الوکیل سے لیا گیا ایسا لفظ ہے جس کے معنی ہی کارساز کے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ کارسازی صرف اور صرف میرے اللہ کو زیبا ہے۔لیکن یہ بھی کالا کوٹ پہن لیں تو ہر وہ آسالی جو اپنی آس لے کر ان کے پاس آتا ہے ان کے لئے یہی کوٹ کالا کفن ب کر اس کے بخت سیاہ کردینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔کیونکہ اسے اپنی فیس سے غرض ہے انسان سے نہیں۔آخر ایسا کیوں؟کس کس ادارے وپیشہ کی بات کروں جس کی دم کو ہاتھ لگا لو وہی چوہدری ہے۔صنعتکار،بزنس مین،سرمایہ دار،جاگیردار،کون ہے جو استحصال نظام کا نمبردار نہیں ہے۔ہاریوں،مزارعوں،مزدوروں کی لاشوں کو نذر آتش اور اور معاشی جبر، ان کے کارخانوں کی بنیادوں میں دفن نہیں ہے۔کس نے مزدوں کے ہاتھ کاٹ کر اپنی خواہشوں کا تاج محل تعمیر نہیں کیا۔کوئی ایک مثال تو ہے۔نہیں ایسا کبھی نہ ہو سکے گا کیوں؟کیا یہ سوالات روز ازل سے انسانی ذہن میں پیدا نہیں ہورہے؟
یقینا تاریخ عالم کا ورق ورق شاہد ہے کہ معاشی جبر وسیاسی استحصال سے ہی بادشاہ کی سطوت،رعب ودبدبہ،فیوڈل کی جاگیر،سرمایہ دار کی فیکٹری،صنعتکار کا کارخانہ ،اور علما کا دوزخ سے ڈرانے کا خوف سلامت رہتا ہے۔کیونکہ ہم سب سے زیادہ مذہب کے نام پر خوف زدہ ہوتے ہیں۔ابن رشد کہتا ہے کہ اگر آپ جاہلوں پہ حکومت کرنا چاہتے ہو تو مذہب کا لبادہ اوڑھ لو۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان تین چیزوں کے لئے ہمہ وقت اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتا ہے،بادشاہ،ملک اور مذہب۔اور مذہب کے ٹھیکیدار تو میرے ملک میں ہر مسلک میں تعداد کثیر میں دستیاب ہیں۔کیوں؟جب میں نے مرشد اقبال کا مطالعہ کیا تو مجھے ان دو اشعار میں اپنے سوالات کا جواب مل گیا جو قارئین کی خدمت میں عرض ہے ۔
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتے ہیں
گلیم بوذرؓ ودلقِ اویسؓوچادرِ زہرا ؓ
اور اس کیوں کے جواب کا دوسرا شعر مرشد اقبال کا اس طرح سے ہے کہ
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button