اپنی دنیا آپ پیدا کر

شہرہ آفاق کتاب’’میرا داغستان‘‘ کے مصنف رسول حمزہ توف لکھتے ہیں کہ جب میں دنیا گھوم کر واپس اپنے گائوں آیا تو مجھے عجب طرح کا ایک سکون محسوس ہوا۔اگرچہ میرا گائوں بہت بڑا یا گنجان آباد نہیں تھا لیکن پھر بھی طمانیت کا ایسا مسکن کہ ماں کی گود ہو جیسے۔ایک سہانی صبح میں نے سوچا کہ کیوں نا ان پگڈنڈیوں پہ نکلوں جس پر اپنے بچپن میں اپنے باپ کی انگلی تھامے میں جایا کرتا تھا۔گائوں کے باہر ایک خوبصورت پگڈنڈی پر ابھی قدم رکھے ہی تھے کہ میرے بابا کا ایک دوست میری طرف آتا دکھائی دیا۔میں نے سلام عرض کیا ،جواب دینے کے بعد مجھے بزرگ نے پوچھا کہ رسول بیٹا کہا کا ارادہ ہے۔تو میں نے جواب دیا کہ بابا اپنے باپ کی یادیں تازہ کرنے کے لئے ان راستوں کو دیکھنا اور چلنا چاہتا ہوں جس پر وہ مجھے بچپن میں لے جایا کرتے تھے۔بابا جی نے متحیر کردہ ایک جواب دے کر اپنی راہ لی۔کہ دیکھو بیٹا اگر تم اپنی دنیا آپ پیدا کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں پرانے راستوں پہ نہیں بلکہ نئے راستے تلاشنے ہوں گے۔کیونکہ نئی دنیا نئے راستوں کے اختتام پر آباد ہوتی ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے قائد ،محمد علی جناح کے ساتھ بھی منسوب ہے کہ جب وہ بچے تھے تو انہوں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ بابا مجھے کامیاب بننے کے لئے کون سا راستہ منتخب کرنا چاہئے۔تو پونجا جناح نے جواب دیا کہ دیکھو بیٹا زندگی میں آپ کو دو راستے ملیں گے۔ایک ایسا راستہ جن پر سبھی لوگ چلتے ہیں اور ایسے راستوں میں آسانیاں،سہولتیں اور مشکلات کا نام تک نہیں ہوتا۔جبکہ دوسرا راستہ ایسا ہوتا ہے جن پر کسی شخص کے نقشِ پا نہیں لگے ہوتے۔ایسے راستے مشکل،دقیق،پریشانیوں سے لبریز ہوتے ہیں لیکن ایسے راستوں کے انتخاب کا فائدہ آپ کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کو بھی ہوتا ہے کیونکہ انہیں ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جتنا کہ پہلے شخص کو ۔پہلا شخص آنے والی نسلوں کے لئے ایسے نقشِ پا چھوڑ جائے گا جو ان کے لئے مشعل راہ ہوگا۔تو قائد اعظم نے مکمل اعتماد کے ساتھ کہا کہ بابا میں دوسرا راستہ منتخب کروں گا۔
اگر ہم مذکور دونوں واقعات کو ایک شعر کی صورت میں پیش کرنا چاہیں تو اقبال سے خوبصورت عکاس کوئی نہیں ہوسکتاکہ
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرآدم ہے،ضمیرکن فکاں ہے زندگی
مسلم ممالک کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہم پڑھتے ہیں کہ کیسے کسے نابغہ روزگار،سائنسدان،انجینئر،پروفیسر،علما،ماہرعلم نجوم،ستارہ شناس،علم شناس اور فلاسفر وحکما پیدا کئے جن کی نظیر آج بھی دنیا میں نہیں ملتی۔کیونکہ ان تمام نے ان راستوں کا انتخاب کیا جو سرآدم و کن فکاں زندگی کا راز تھے،انہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا خواب ہی نہیں دیکھا بلکہ اس پر چل کر آنے والی نسلوں کی راہوں کو متعین کیا۔علم وادب اور سائنس وفلسفہ کے میدان میں ایجادات واختراعات کے وہ لامتناہی راز کشا کئے جو دنیا کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کا موجب بنے۔پن ہول کیمرا،گھڑی،دوربین،ونڈ مل،الجبرا،فونٹین پن،اور ایسی کئی ایجادات جو مسلمان سائنسدانوں کی فہرست میں شامل ہے اور آج دنیا کی ترقی میں اپنا خاص کردار ادا کر رہی ہیں۔گویا یہ تمام ایجادات آج کی نسل اور تا قیامت آنے والی نسلوں کے استفادہ کے باعث بنتی رہیں گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ آج کا دور ایسی شخصیات سے محروم کیوں؟قحط الرجال کا شکار مسلم امہ ہی کیوں،کیا آج کی مائوں نے نابغہ روزگار اور عظیم انسانوں کو پیدا کرنا کم کردیا ہے۔حضرت ابو بکرؓ کا حلم،حضرت عمرؓ کی شجاعت،حضرت عثمان ؓ کی سخاوت اور حیدر کرار کی للکار موجودہ نسل میں ناپید کیوں ہو گئی ہے۔تو اس کا ایک سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ نئی نسل نے نئے راستوں کا انتخاب ترک کردیا ہے۔آج کی نسل ہارڈ ورک کی بجائے سمارٹ ورک پر یقین رکھتی ہے جس کا مطلب ہے کہ دوسروں کے شکار پر اپنا حق کیسے جتانا ہے۔دوسروں کی زمین پر اپنا پلازہ کیسے تعمیر کرنا ہے۔کسی کے علم کو اپنے استفادہ میں لاتے ہوئے شب بھر میں امرا کی فہرست میں کیسے شمار کروانا ہے۔بس صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا چار آنے والی بات ہے۔ہماری نسل نے نئے راستوں کو کھوجنا اور تلاش کرنا چھوڑ دیا ہے۔ہم اپنی بنانے کی بجائے پکی پکائی پر زیادی یقین رکھتے ہیں۔اگر بچوں کو کہا جائے کہ محنت ہی سب کچھ ہے تو بڑا ٹکا سا جواب ملتا کہ جب بازار سے دودھ مل رہا ہے تو پھر بھینس پالنے کا کشٹ کیوں کریں۔کیوں کہ وہ نہیں جانتے کہ بھینس صرف دودھ ہی نہیں دیتی،آمدنی،فیول،رکھوالی،نسل سے نسل اور معاشرہ میں ایک مقام بھی دیتی ہے۔اگر ایسا نہیں تو پھر کیوں یہ کہا جاتا تھا کہ بھینسوں والے گھر دور سے ہی پہچان لئے جاتے ہیں۔یہ تو سٹیسٹس کا استعارہ سمجھا جاتا تھا۔
نئی تحقیق اور علمی طریقہ کار نے نام نہاد طریقہ تدریس متعارف کروا کر بچوں اور استاد کے درمیان اسی خلیج پیدا کر دی ہے کہ چاہتے ہوئے بھی اب اسے عبور نہیں کیا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ آج کی نسل سہل پسند،تن آسان اور شارٹ کٹ کے چکر میں ایسی ایسی گھنجل دار مخمصوں میں پھنس چکے ہیں کہ جس کا اختتام ماسوا رسوائی کچھ نہیں۔چینی کہاوت ہے کہ ترقی کے سفر میں کبھی دیر نہیں ہوتی،جب موقع ملے اس کا آغاز کردینا چاہئے۔لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ آج سے ہی یہ عزم صمیم کریں کہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا آغاز کرنا ہے۔پھر دیکھئے اللہ کیسے کیسے راستے ہمارے لئے کھول دیتا ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button